ایڈیٹر
زبان بلاشبہ ابلاغ کا ایک وسیلہ ہےلیکن تحریر کی صورت میں یہ محض ابلاغی وسیلہ نہیں رہ جاتی بل کہ تربیت کا ذریعہ اور ساتھ ہی ذمہ داری کا معاملہ بھی بن جاتی ہے۔
زبان مسلسل سیکھنے ، سکھانے کا عمل ہے۔ اس لیے زبان پر مکمل دسترس کا دعویٰ عبث ہو گا۔ مہارت البتہ ایک وصف ہےاور مہارت کا ذریعہ ظاہر ہے مسلسل عمل ہے اور یہ عمل مطالعے ، مشاہدے اور تجربے کا مرہون ہے۔
’حال حوال‘ کے لیے لکھنے والوں کی اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ جن کے ہاں زبان کی غلطیاں کچھ اچھنبے کی بات نہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے کئی سینئر لکھنے والوں کی طرح نئے لکھنے والے ،’بلوچ اور بلوچستان والوں کو اردو کا غلطی معاف ہے‘ والا روایتی بیان دے کر گلو خلاصی نہیں کراتے، بل کہ اپنی غلطیوں کی نشان دہی اور تصحیح کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
ایسے کئی لکھنے والے بارہااردو گرائمر اور قواعد و انشا کے اصول دریافت کرتے ہیں۔ قواعد و انشا ایک پیچیدہ مضمون ہے، اسے ایک تحریر میں نمٹایا نہیں جا سکتا، البتہ یہاں ہم لکھنے والوں کے لیے زبان کے کچھ معروف اصول درج کیے دیتے ہیں تاکہ انھیں لکھتے ہوئے سہولت میسر رہے۔
1۔ زیادہ تر غلطیاں تذکیر و تانیث کی ضمن میں ہوتی ہیں۔ اس سے متعلق چند عمومی اصول یوں ہیں:
۰ تمام بر اعظموں، ملکوں، شہروں، مہینوں، پہاڑوں، درختوں، اخبارات، رسائل، رنگوں اور جوہرات کے نام مذکر ہوتے ہیں۔
۰ جمعرات کے سوا تمام دنوں کے نام مذکر ہیں۔
۰ زمین کے سوا تمام سیاروں کے نام مذکر استعمال ہوتے ہیں۔
۰ گنگا اور جمنا کے سوا تمام دریا مذکر ہیں، جیسے گنگا بہتی ہے۔
۰ چاندی، کانسی اور قلعی کے سوا تمام دھاتیں مذکر ہیں، جیسے سونا، تانبا، وغیرہ۔
۰ تمام نمازوں ،زبانوں ، کتابوں کے نام مؤنث ہیں۔
۰ بعض الفاظ مذکر اور مونث دونوں طرح بولے جاتے ہیں، جیسے؛املا، فاتحہ،نقاب، نشو و نما، سانس، درد، گیند، قامت، قمیص، فکر،افکار وغیرہ۔
۰ ایسے اسما جن کے آخر میں ،ستان، بند، آب، بان، دان، زار، واں، بار، زار، پن، وغیرہ آتے ہیں، عموماً مذکر بولے جاتے ہیں۔
جیسے، قبرستان، کوہستان، نخلستان(ان میں صرف داستان مؤنث ہے)
گلاب، سیلاب، پیشاب(ان میں شراب مؤنث ہے)
بادبان، سائبان، ساربان(ان میں آن بان مؤنث ہے)
ازار بند، کمر بند، بستر بند
قلم دان، عطر دان، خاندان
بازار، گل زار،لالہ زار
کنواں، دھواں،کارواں
کاروبار، دربار، اعتبار
بچپن، بڑا پن، دیوانہ پن
سامان، ارمان، رحمان
۰ جن اسما کے آخر میں چھوٹی ’ی‘ آتی ہو، عموماً مؤنث بولے جاتے ہیں۔ ان میں گھی، پانی، دہی اور بھائی کو استثنیٰ حاصل ہے۔
۰ عوام مذکر اور قوم مؤنث ہے۔
2۔ املا کی غلطیاں
املا میں ایک تو لکھت کی غلطی ہے اور دوسری وہ جو غلط العام ہے، اسے بولنے میں تو ہرج نہیں، تحریر میں حتیٰ الا مکان درست املا ہی لکھنا چاہیے۔ ذیل میں ایسے ہی چند معروف اغلاط اور ان کی درست املا درج کی جا رہی ہے۔
۰ آسامی غلط، اسامی درست ہے
۰ انکساری غلط، انکسار درست ہے
۰ برائے کرم غلط، براہِ کرم درست ہے
۰ بمعہ غلط، مع درست ہے
۰ تنازعہ غلط، تنازع درست ہے
۰ناعاقبت اندیش غلط، عاقبت نا اندیش درست ہے
۰ قمیض غلط، قمیص درست ہے
۰ ناطہ غلط، ناتا درست ہے
۰ معمہ غلط، معما درست ہے
۰ طلباءغلط، طلبہ درست ہے
۰ مشکور غلط، شکرگزار درست ہے
۰نقصِ امن غلط، نقضِ امن درست ہے
۰کاروائی غلط، کارروائی درست ہے
3۔ روز مرہ
روزمرہ یوں تو گرائمر کا مشکل ترین حصہ ہے، اسے زبان کو باضابطہ سیکھے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔البتہ کچھ عمومی اشارے مدنظر رکھے جا سکتے ہیں۔
۰ ہر،واحد اسما کے ساتھ اور تمام جمع کے ساتھ آئے گا، جیسے ہر شخص اور تمام شخصیات، یا، ہر چیز اور تمام اشیا۔
۰ نہ کے ساتھ ہی نہیں آئے گا، جیسے نہ اس نے میری آواز سنی نہ ہی کوئی جواب دیا ،غلط ہے۔ درست جملہ ہو گا، نہ اس نے میری آواز سنی، نہ کوئی جواب دیا۔
۰ ہمزہ کا استعمال بلوچی کی طرح اردو میں بھی کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، اس لیے اسے ترک کرنے کی کوشش کریں۔ جیسے ان شااللہ، ماشا اللہ، ثنااللہ، زیب النسا ، وغیرہ ہمزہ کے بغیر بھی مکمل آواز ادا کرتے ہیں، اس لیے ان کے مابین ہمزہ کا استعمال اب غیر ضروری تصور ہوتا ہے۔
اسی طرح، لئے غلط ہے، لیے درست ہو گا، دئیے کی جگہ دیے۔
لیجئے نہیں، لیجیے۔ چاہئے نہیں، چاہیے۔
۰ مشترکہ الفاظ یا تراکیب کو حتیٰ الامکان الگ الگ لکھنے کی کوشش کیجیے۔
کیلئے نہیں، کے لیے لکھیں۔
آئیگا، جائیگا، اسکا،جسکا کی بجائے، آئے گا، جائے گا، اس کا، جس کا لکھیں۔
جبکہ، چنانچہ، حالانکہ کو جب کہ، چناں چہ، حالاں کہ لکھیں۔
حکمران کی جگہ حکم ران، سیاستدان کی جگہ سیاست دان، خوبصورت کی جگہ خوب صورت، وغیرہ۔
آخری بات یہ کہ اسے زبان سے متعلق کسی صورت مکمل گائیڈ نہ سمجھیں۔ زبان اور بالخصوص تحریری زبان ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔زبان کو سمجھنے کے لیے قواعد و انشا کی کتب اور لغت کا استعمال از حد ضروری ہے۔ یہ محض ایک سادہ سا مختصر چارٹ ہے، جو آپ کو فوری ہنگامی امداد تو دے سکتا ہے لیکن زبان پر دست رس اور مہارت کے لیے مسلسل مطالعہ اور مشاہدہ شرطِ لازم ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں