{ads}

عبدالحلیم حیاتان 


گوادر شہر میں 17 اپریل کو ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد اب تک مُتاثر ہونے والے علاقوں میں زندگی معمول پر نہیں آ سکی ہے۔ جگہ جگہ کئی فٹ پانی کھڑا ہے جس میں ملا فاضل چوک سمیت اہم شاہرائیں شامل ہیں۔ گو کہ بارشوں کے بعد برساتی پانی کو ٹھکانے لگانے کے لیے ڈی واٹرنگ آپریشن شروع کردیا گیا ہے جس میں جی ڈی اے، ضلعی انتظامیہ اور میونسپل کمیٹی گوادر اِس کی نگرانی کررہے ہیں لیکن متاثرہ علاقوں کے مکین اب تک ڈی واٹرنگ آپریشن سے مطمئن نہیں۔

کئی متاثرہ علاقوں کے مکین برساتی پانی کو نکالنے کے لیے حکومتی اقدامات کو ناکافی قرار دے رہے ہیں اور بہت سے متاثرین کا کہنا ہے کہ جب سے بارش ہوئی ہے اُن کے ہاں گھروں اور گلیوں میں کئی فٹ پانی کھڑا ہے۔ حالیہ بارشوں سے متاثر ہونے والی ٹی ٹی سی کالونی گْوادر کے رہائشی اب تک ریلیف نہ ملنے کی شکایت کررہے ہیں۔ 

17 اپریل کو ہونے والی بارشوں کے بعد ڈھور گھٹی سے لے کر یوسی شمالی، یوسی وسطی اور یوسی جنوبی کے رہائشی علاقے ایک مرتبہ پھر برساتی پانی سے متاثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ کچھ ایسے بھی علاقے ہیں جہاں مسجد کو جانے والے راستے برساتی پانی کے سبب مسدود ہیں۔ علاقہ مکینوں کا اپنے گھر سے نکل کر گلیوں کو پار کرنا بھی مشکل بن گیا ہے۔ 

یاد رہے کہ اِس سے قبل فروری کے مہہنے میں بھی بارش کے دو اسپیل آئے تھے جو حالیہ اسپیل سے شدت میں زیادہ تھے اور بہت سے علاقوں میں گزشتہ بارش کے اسپیل کا پانی جمع تھا کہ 17 اپریل کی بارشوں کے اسپل نے شہریوں کو پھر پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ 

شہری شکایت کررہے ہیں کہ بارشوں کے بعد نکاسی آب کے لیے گْوادر شہر میں حکومتی مشنری کی دست یابی بھی اہم مسئلہ ہے لیکن یہ دوش بھی متعلقہ اداروں کا ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اب گْوادر میں پانی کے قدرتی نکاس کے لیے نظام موجود نہیں جس کے لیے اُنہیں پیشگی اقدامات کرنا چاہیے تھے لیکن کام چلاؤ نظام پر انحصار کرنے سے ہم شہری اِس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ 

واضح رہے کہ بارش کے پہلے اور اب گزرنے والے اسپل کی بابت محکمہ موسمیات نے پہلے سے پیشنگوئی کررکھی تھی لیکن اِس سے نمٹنے کے لیے پیشگی انتظامات بروئے کار لانے کے لیے وہ تیاری نظر آئی کہ جس سے نکاسی آب کو ممکن بنا کر شہریوں کو پریشانی سے بچایا جا سکے۔ 

ٹی ٹی سی کالونی گْوادر کے رہائشی اکبر بلوچ کہتے ہیں "جب سے بارش ہوئی ہے اُن کے اور ان کے ہمسائے میں واقع کئی گھر برساتی پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ کئی گھر ایسے بھی ہیں جِن کے کمروں میں برسات کا پانی داخل ہوا ہے۔ متاثرہ گھر کے مکین عارضی رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ جمع برساتی پانی کے باعث اُن کے لیے اپنے گھر میں رہ کر کھانا تیار کرنے میں دقت کا سامنا ہے۔ اکبر شکایت کرتے ہیں کہ جب سے بارش ہوئی ہے وہ پانی کی نکاس کے لیے حکومتی توجہ سے محروم ہیں۔ سرکاری ادارے اور عوامی نمائندے شہریوں کی داد رسی سے متعلق بالکل لاتعلق ہو گئے ہیں۔"

گوادر شہر اِس وقت موسمیاتی تبدیلی کا بھی شکار ہے، واٹر ٹیبل میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن دوسری طرف شہر کے برساتی پانی کی قدرتی گزرگاہیں تعمیراتی منصوبوں کہ وجہ سے بھی بند ہیں۔ جب بھی بارش ہوتی ہے، شہر ڈوب جاتا ہے۔ گْوادر میں کئی برسوں سے ترقیاتی منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں لیکن پائیدار منصوبہ بندی کہ جسے انسانی ترقی کے معیار سے بھی جوڑا جاتا ہے، وہ ناپید ہے۔ 

گوادر شہر کا بُنیادی انفراسٹرکچر زبوں حالی کا شکار ہے۔ سیوریج اور ڈرینیج شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بیٹھ گیا ہے اور اُس کو درست سمت میں لانے کے لیے منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ اب تک جو منصوبہ بندی کی گئی ہے، شہری اس کو پذیرائی نہیں دیتے۔ گْوادر شہر کے برساتی پانی کا جو قدرتی بہاؤ ہے، وہ مشرقی سمت میں ہے لیکن دیمی زر ایکسپریس وے کی تعمیر کے بعد وہ تقریباً بند ہو گیا ہے، اِس لیے اب برساتی پانی نے شہر کے نشیبی علاقوں کو متاثر کرنا شروع کیا ہے۔ جس سے شہر اربن فلڈنگ کی شدید زد میں ہے۔ 

گوادرہر میں بارشوں کے بعد اِس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ یہاں شہری سہولیات اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں کیونکہ شہری ادارے وہ وسائل نہیں رکھتے جو کسی بھی ناگہانی صورت حال پر فی الفور قابو پا سکیں اور یہ صورت حال شہریوں کو دیر تک پریشان کرتی رہتی ہے۔ 

گوادرایک ابھرتا ہوا شہر ہے اور اربنائیزیشن میں اضافہ ہوا ہے۔ اب گوادر شہر عارضی اقدامات کا متحمل نہیں ہو سکتا بل کہ اِس کے لیے دیرپا منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ شہری سہولیات میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر یہ شہر اِسی طرح پانی بُرد ہوتا رہے گا۔ گْوادر پورٹ بننے کے بعد جس طرح گْوادر شہر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا اور ترقی کے بُلند و بانگ دعوے کیے گئے تھے، وہ اب تک تشنہ طلب ہیں، اِس لیے اِن دعوؤں پر ہر آنے والی برسات سوالیہ نِشان چھوڑ کر اپنا راستہ لے جاتی ہے۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی