سلیمان ہاشم
کسی زمانے میں یہاں رونق ہوا کرتی تھی، صبح سویرے یہاں کی دکانیں کھل جاتی تھیں اورمغرب کی اذان سے پہلے بند ہوتی تھیں۔ ان تنگ گلیوں میں گزرنے کے لیے راستے تنگ ضرور تھے لیکن دلوں میں کشادگی تھی۔ شام لال کی دکان ہو کہ بشام بلوچ کی دکان ہو کہ جنت سیٹھ کھوجا کی د کان ہو۔ قریب قریب سب اپنے وزیر کما رہے تھے۔ شام کو ماہی گیر نئے کپڑوں، اپنی روایاتی پگڑیوں اور بوسکی قمیصوں، سفید گھیرے دار ملبوسات سے بازار میں خرید و فرخت میں مصروف ہوتے تھے۔ سرِشام پٹرومکس روشن کیے جاتے تھے۔ رات گئے تک ہوٹل کھلے رہتے تھے۔ قصہ خوانوں اور سننے والوں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ جیسے کسی سنیما میں فلم چل رہی ہو۔ محبت، دوستی، رواداری عروج پر تھے۔ کوئی ہندو، کوئی کھوجا، کوئی عرب کوئی نمازی، کوئی ذگری لیکن کوئی تعصب، کوئی نفرت نہیں تھی۔ دو سو سال عربوں نے صوبہ گوادر پر حکمرانی کی لیکن کوئی سردار یا نواب نہیں تھا، سب اس خطے کے آزاد باشندے تھے۔
کوئی منشیات کھلے عام نہیں پیتا تھا۔ شاذو و نادر کوئی چرسی کسی کونے پر ایک دو دم لگاتا ہو گا۔ وہ بھی اپنے آپ کو فقیر و درویش تصور کرتا تھا۔ سب کے لیے یہ بازار ماں کے آنچل کی طرح کھلا تھا۔ دلوں میں محبت کی شمعیں روشن تھیں۔ بازار کی ہر دوسری گلی میں کوئی ماسی کوفتہ و حلوہ پوری اور کوئی گور بوٹی یا ماشینک اور تنی نان (شِیر مچھلی کے ٹکڑے اور ہلکی روٹی یا ماش کی دال) سے مسافروں کی طرف اپنی خوب صورت آواز بلند کرتی نظر آتی تھیں۔
اس بازار میں اِکا دُکا اگر کوئی خاتون نظر آ بھی جاتی تو وہ کسی مشہور و معروف سونار کی دکان پر، کسی شادی بیاہ کے موقع و مناسبت سے سونے کے بنے خوب صورت ڈیزائن کے نمونے لے کر کسی کہدہ، کسی امیر کے گھر پہ شادی بیاہ کے نمونے ان گھروں پر بغیر کسی خوف خطر کے لینے آتی تھیں۔ شاہی بازار میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ خرید وفروخت کے لیے دنیا جہاں کے سیاح آتے تھے اور دنیا جہاں کے سامان سے بھرا آزاد کاروبار تھا۔ چوری ڈکیتی کا کوئی خوف و خطرنہ تھا۔ ریڑھی بان عمال ان تنگ گلیوں سے سامان گلگ سے آگے کھلے میدان، جس کو اب ملا فاضل چوک کا نام دیا گیا ہے، تج پہنچاتے تھے۔
یہاں کوئی گٹر کا پانی نہیں ابلتا تھا۔ والی بال کی دو پِچ نوجوانوں اور بچوں کے کھیلنے کے لیے تھیں۔ دو جگہوں پر بیٹھ کر مچھلی کاٹنے کے اوزار سے لے کر بچوں کے لٹوں کے سیج بناتے تھے۔ دوسری جانب مسقط سلطنت آف عمان کے بلوچ سپاہی خیمے لگا کر مکران کے دور دراز علاقوں میں جانے کے لیے تیز گام اونٹ بانوں کے منتظر رہتے تھے یا آ رہے ہوتے۔ بحری جہاز سے کسی کو کراچی، کسی کو مسقط، کسی کو دوبئی، کسی کو قطر، کسی کو بحرین، کسی کو کویت، کسی کو بصرہ و عراق اور کئیوں کو سعودیہ عربیہ حج و عمرہ کی سعادت کی ادائیگی کے لیے خیمہ زن دیکھا جاتا تھا۔
ان دنوں مسافر خانوں میں بھی جگہ نہیں ملتی تھی۔ بحری جہاز 10 یا 12 کلومیٹر دور لنگر انداز ہوتے تھے۔ کشتی بان بھی ان بحری جہازوں سے منسلک تھے۔ کسٹم کے قریب وہ ہمیشہ لنگر انداز رہتے تھے۔ تو دوسری جانب باد بانی کشتیوں کی یلغار مچھلیوں کی بڑی مقدار میں بھرے پردوں پر ٹھہر کر اپنی مچھلیوں کو فروخت کرکے کسی بھی سائل کو مایوس نہیں کرتے۔ مفت میں کھانے کے لیے اچھی مچھلی دے دیتے تھے۔ بچے مرغابی کا شکار کرتے تو رحم دل ہندو دکاندار بچے کے ہاتھ میں چونی تھما کر اس سے مرغابی کو پھر سمندر میں آزاد کرواتے نظر آتے تھے۔
گوادر کا کوئی شخص بھوکا نہیں سوتا تھا۔ کسی کو ایک بوری آٹا کے لیے لائن میں کھڑے ہونےکی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔بھیک مانگنا عیب تھا۔ گوادر کے عام لوگ اور ماہی گیر بھی خوش حال تھے اور مزدور بھی پریشان نہیں تھے۔ سب کا رزقِ حلال اللہ نے مقرر کیا تھا۔ گوادر پورے مکران بلوچستان کا معاشی حب اور معاشی نظام کا مرکز تھا۔
اب یہی مرکز اجڑ چکا ہے۔ سید ہاشمی، عبد المجید گوادری کا گوادر اجڑتا جا رہا ہے اور اب طوفانی بارشوں نے اسے مزید نقصانات سے دوچار کر دیا ہے۔ شاہی بازار کی یہ گلیاں چیخ چیخ کر فریاد کر رہی ہیں کہ ہمیں بچائیں کہ ہم آپ گوادریوں کے ماضی اور درخشاں ثقافت تہذیب کے انمول اثاثے ہیں۔ یہ ہمیں اپنے ماضی سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ جاگو اے گوادر کے باسیو! حکمرانوں کو جگاؤ کہ وہ تمہارے ماضی کے درخشاں ادوار اور شناخت کو محفوظ رکھیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں