{ads}

نجیب سائر


کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کب ہوا؟ 

صاحبو! بلوچستان میں پی سی ایس کا سیزن ختم ہوا ہے۔ پبلک سروس کمیشن مقابلے کے امتحانات لے چکا ہے۔  یہاں زبان یعنی لینگویجز کا ایک پیپر لازمی ہوتا ہے، وہ بھی اپنی مرضی کا یعنی اردو، پنجابی، فارسی، پشتو، بلوچی، براہوئی وغیرہ۔ اس وغیرہ میں سنسکرت بھی شامل تھی۔ حیران نہ ہوں، یہ کہانی پھر سہی۔ 

براہوئی کا پیپر کسی بزرگ نے اپنی قابلیت جھاڑنے کے لیے بنایا ہو گا یا پھر کسی جوان پروفیسر نے اپنی فرسٹیشن امیدواروں پہ نکالی ہے یا کسی بزعم خود عالم نے براہوئی زبان اختیار کرنے والوں کو پاتال میں دھکیلنے کی ایک کوشش کی ہے، سازش کی ہے۔ یا یہ بات کہ، میں دیکھتا ہوں کون اس باریہ پرچہ پاس کرتا ہے۔ 

دیکھیے، مقابلے کے امتحان میں ایک ایک نمبر معنی رکھتا ہے۔ اوپن میرٹ کا فیصلہ بھی اسی طرح انجام تک پہنچتا ہے۔ اگر ایک امیدوار بھی اوپن میرٹ پہ چلا جائے تو سمجھیں اس نے اپنے ڈویژن سے ایک اور امیدوار کو جگہ دی۔ مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے ہر بار براہوئی کا پرچہ کسی مخصوص طرز پہ بنایا جاتا ہے اور وہ امیدوار پیچھے رہ جاتے ہیں جو براہوئی اختیار کرتے ہیں۔ 

کچھ سینئر افسران یا شہریوں سے دریافت کریں تو آپ کے علم میں اضافہ ہو گا کہ کیسے وہ فیل قرار پائے اور انٹرویو کے بعد میرٹ میں جگہ نہ پا سکے۔ کس وجہ سے؟ براہوئی کے سبب۔ 

میں یہ دعویٰ ہرگز نہیں کروں گا کہ تمام نمبرز براہوئی پرچہ حل کرنے والوں کو ملیں مگر یہ حق ضرور رکھتا ہوں کہ اس امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھاؤں۔ آپ ایک نظر تو باقی زبانوں کے پرچہ جات پہ دوڑائیں اور موازنہ کریں کہ براہوئی کے ساتھ کیسا سلوک رکھا جا رہا ہے۔ 

لازمی مضامین میں یہی ایک زبانوں کا پرچہ تو ہے جو قابلیت، اہلیت اور دلچسپی کی بنیاد پر امیدواروں کے لیے نوید کی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اختیاری مضامین میں ایک مشکل آئے دوسرا آسان تو اسے قسمت کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے کہ وہاں ہر پرچہ مختلف ہے مگر زبانوں کے لیے کم از کم ایک جیسا پیٹرن اختیار کیا جانا چاہیے۔ 

آئیے پرچوں بلکہ پرجہ جات پہ غور کرتے ہیں۔ عموماً پانچ سوالات پوچھے جاتے ہیں جیسے ایک مضمون (مختلف عنوانات میں سے ایک)، اشعار کی تشریح، صحیح غلط، ترجمہ، شخصیات میں سے ایک (مختلف آپشنز)، تذکیروتانیث، واحد جمع، کوئی اور سوال وغیرہ۔ 

اب آتے ہیں براہوئی پیپر کی طرف۔ جس نے ہر بار کم نمبر دلوا کر میرٹ کو برابری کی سطح پہ نہ لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 

براہوئی پرچہ 2023 پی سی ایس بلوچستان

تمام سوالات لازمی ہیں۔ 

ماشاءاللہ۔ دیکھیے آٹھ سوال کرنے ہیں، وہ بھی انشائیہ یعنی لمبے والے۔ یہ تو پورا ہائیڈروجن بم ہے۔

سوال نمبر 1۔ گل بنگلزئی جہانی ادب نا کتاباتا براہوئی ٹی مٹ و بدل کرینے۔ اونا ترجمہ مروکا کتاب آتا باروٹ تفصیل اٹ نوشتہ کبو۔ (20)

ترجمہ: گل بنگلزئی نے بین الاقوامی ادب کی کئی کتابوں کا براہوئی میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کی ترجمہ کی گئی کتابوں پہ تفصیل سے لکھیں۔ 

یعنی پہلے آپ کو گل بنگلزئی (مرحوم) کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ یقیناً شخصیات کے بارے میں طلبا پڑھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کسی نے مذکورہ شخص کے بارے میں نہیں پڑھا، آپشن میں چھوڑ دیا ہو تو وہ کیسے جواب دے سکتا ہے۔ فرض کریں امیدوار کو علم بھی ہے تو کیا اسے گل صاحب کی تمام کتابوں کے بارے میں پتہ ہو گا؟ کیا وہ ہر کتاب کے بارے میں لکھ سکے گا۔ یہ سوال تو پورا مقالہ ہے۔ پی ایچ ڈی کی ریسرچ والا مقالہ۔ 

یہ سوال ایسے بھی تو ہو سکتا تھا کہ گل بنگلزئی بحیثیت مترجم اور ان کے کام کی خصوصیات۔ 

سوال نمبر2- مہرگڑھ نا تہذیب نا باروٹ نم انت چارے سرجمی اٹ لکھبو۔

ترجمہ: مہرگڑھ کی تہذیب کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں، وضاحت کریں۔ (20)

چلیں اس سوال کا تعلق اگر لٹریچر سے جوڑ دیں تو کیا طلبا کی اکثریت نے ایسا کچھ پڑھا ہو گا؟ جنرل سا جواب بہرحال لکھ دیا ہو گا۔ 

سوال نمبر 3- براہوئی ادب نا اٹ دروء؟ دافتا جاچ ئے البو۔(10)

ترجمہ: براہوئی ادب کے کتنے ادوار ہیں۔ روشنی ڈالیں۔ 

یہ بنیادی سوالات میں سے ایک ہے۔ طلبا کو پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ 

سوال نمبر 4- سندھ اٹ براہوئی ادب نا زیہا اخدر کاریم مسونے؟ دا ادبی کاریم نا بروٹ نم انت چارے۔ (10)

ترجمہ: سندھ میں براہوئی ادب پہ کتنا کام ہوا ہے؟ اس ادبی کام کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں۔ 

سبحان اللہ۔ ایک تو اللہ اللہ کرکے امیدواروں نے بلوچستان کے ادب پہ کیسے پڑھا، کورس کو کور کیا ہو گا اوپر سے پیپر بنانے والے نے سرحد پار سندھ اتار دیا۔ کیا کوئی ایسا مواد دست یاب ہے؟ یقیناً نہیں بلکہ دعوے کے ساتھ نہیں۔ تو طلبا کہاں سے سندھ کے اندر جا کر براہوئی ادب پہ کام کو کشید کریں۔ پہلے پڑھائیں، کتابوں میں لے آئیں پھر پوچھیں۔ 

سوال نمبر 5- انت براہوئی زبان نا وجود خطرہ ٹی ء یا نہ؟ مثال تہٹ ثابت کبو- (10)

ترجمہ: کیا براہوئی زبان کے وجود کو خطرہ ہے؟ مثال دے کر ثابت کریں۔ 

اس کا جواب تو خود پیپر سیٹر نے اوپر سوال نمبر 4 میں دے دیا ہے۔ خطرہ تو آپ سے ہے، اب مثال کی کیا ضرورت۔ ایسے پیپر بنیں گے تو وجود کیا ہر براہوئی بولنے والے کو خطرہ ہو گا۔ بہرحال یہ سوال مشکل نہیں تھا۔

سوال نمبر 6- داوخت آ براہوئی زبان اٹ  اخدر اخبار و رسالہ چھاپ مننگ ٹی ء؟ سرجمی اٹ لکھبو۔ (10)

ترجمہ: اس وقت براہوئی زبان میں کتنے اخبارات و رسائل چھپ رہے ہیں۔ تفصیل سے بتائیں۔ 

واہ۔ اس میں اگر سندھ یا بلوچستان کے باہر کے رسائل رہ گئے تو کیا نمبر اچھے مل جائیں گے؟ یہاں کتنے کے بجائے محض اخبارات و رسائل اور ان کے اثرات پہ سوال پوچھا جاتا تو طلبا کچھ بہتر لکھ سکتے تھے۔ بہرحال جتنا مواد کتابوں میں ہے، امید ہے طلبا نے اس کے مطابق اچھے جوابات پیش کیے ہوں گے۔ 

سوال نمبر 7- براہوئی ٹی سفرنامہ دیر دیر نوشتہ کرینو؟ سفرنامہ نا کتاب آتا جاچ البو۔ (10)

ترجمہ: براہوئی میں سفرنامے کس کس نے لکھے ہیں؟ (سفرنامہ) کتابوں پہ لکھیں۔ 

یااللہ یہ کہاں سے لائیں۔ کیا ریگولر طلبا اس کا جواب لکھ سکیں گے؟ یقیناً انھیں بھی مشکلات کا سامنا ہوا ہو گا۔ 

سوال نمبر 8- انگلش سے براہوئی ترجمہ (10)

اصل اعتراض ہمیں طویل پیپر پہ ہے۔ کیا یہ ممکن ہے تین گھنٹے میں کوئی اسے اچھے سے حل کر سکے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اُس صورت میں ہوسکتا ہے جب ایک سوال کے پانچ نمبر ہوں تو دوسرے کے دس۔ اگر آٹھ سوالات کو وقت پہ برابر تقسیم کریں تو ہر سوال کے لیے 22 منٹ وہ بھی بنا سوچے۔ بھئی برین اسٹارمنگ بھی کسی چیز کا نام ہے۔ ذہن کے دریچے وا کرنے میں بھی تھوڑا سمے تو لگتا ہے۔ 

اے میرے پیارے پرچہ بنانے والے! آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔ یہ تو محض تین گھنٹے کا ایک پیپر ہے پھر پتہ نہیں کسی نے زندگی میں براہوئی کتابیں پڑھنی بھی ہیں کہ نہیں۔ امتحان لینا ہے تو جا کر کسی یونیورسٹی میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالر کا لے لیں یا پھر کسی چینل کو براہوئی میں انٹرویو دیں یا مندرجہ بالا سوالات کے جوابات سوشل میڈیا پہ دیں۔ سب سے پہلے میں آپ کی ویڈیو پہ لائک، شیئر اور کمنٹ کروں گا، وعدہ ہے۔ آئندہ پرچہ بنانے سے پہلے سابقہ پیپرز اور باقی تمام زبانوں کے پیپرز کا موازنہ کر کے آگے بڑھیے گا۔ 

ہم نے یہ بھی سنا کہ اگر پرچہ فلاں بنائے تو فلاں چیک کرنے والا نمبر نہیں دے گا اور اگر فلاں چیک کرے تو فلاں نہیں بنائے گا۔ فلاں اِس طرح کے سوالات دے فلاں اُس طرح پوچھے گا۔ یعنی یہ فلاں کا انداز ہوسکتا ہے اور یہ فلاں کا انداز ہے۔ ہر ایک نے اپنی مسجد بنائی ہے۔ خدا کرے یہ مسجدیں منہدم ہو جائیں۔ اب خدا جانے کہ پرچہ بناتا کون ہے اور چیک کون کرتا ہے۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ بنانے والا اور چیک کرنے والا ایک ہے یا مختلف اور اس بارے پبلک سروس کمیشن کا کیا قانون ہے۔ اب اس بیچ کے جھگڑے میں امیدواروں کا کیا قصور۔ وہ تو ایک پیپر دے کر اچھے مستقبل کا خواب لیے ہوتے ہیں۔ خدارا ان پہ رحم کریں۔ 

اس سلسلے میں میں نے اور میرے کچھ احباب نے مختلف ذرائع سے معلومات لیں کہ آخر پرچہ بنایا کس نے ہے۔ تو سب کو بال ایک دوسرے کے کورٹ میں پھینکتے ہوئے پایا گیا۔

یہ نہ صرف ایک پرچہ ہے بلکہ زبان، ثقافت اور ادب کی خدمت ہے۔ زبانوں کو اگر بچانا ہے تو ان کی ترویج لازمی ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ براہوئی کو سی ایس ایس میں شامل کیا جائے اور آپ یہاں پی سی ایس میں امیدواروں کو بدظن کررہے ہیں۔ پی سی ایس کا پہلا پرچہ زبانوں کا تھا۔ براہوئی کے سبب طلبا اذیت کا شکار رہے، کئی ایک نے باقی پیپر دیے نہیں اور جنھوں نے پورے پیپر دیے وہ بھی براہوئی پرچے کے سبب کوفت میں مبتلا ہیں۔ ۔ جس طرح کا پرچہ ہے اگر کوئی 50 نمبر لے بھی تو غنیمت ہے لیکن میرٹ میں جگہ بنانا مشکل بلکہ ناممکن لگ رہا ہے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔ اب چیکر کو ہاتھ ہولا رکھنا چاہیے۔ پبلک سروس کمیشن کو اس بارے میں ریویو کرنا چاہیے۔

امیدوار مایوس نہ ہوں۔ آنے والے امتحانات کی تیاری میں لگ جائیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی