محمد ایوب
ضلع نصیرآباد میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ اس ڈویژن میں آج بھی جاگیردارانہ نظام نافذ ہے۔ غربت، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارنہ نظام کی پیداوار ہے۔ جاگیردار کبھی نہیں چاہتا کہ محکوم متحد ہو کر اپنے حقوق حاصل کر سکیں۔ جاگیردارانہ نظام نے غریب طبقے کی سوچ کو مفلوج کر رکھا ہے۔ اس نظام کے تحت ان کو معلوم نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ ریاست پرواجب ہے کہ ہرشہری کو تعلیم اور صحت فراہم کرے۔
ہر خود مختار ریاست اپنے شہریوں کو ان کے حقوق دیتی ہے اور ہم جس ریاست کا حصہ ہیں اس کے آئین اور قانون کی نسبت سے دیکھا جائے تو ہمارے حقوق بھی دوسرے شہریوں کے برابر ہیں۔ جیسے کہ صحت انسان کا بنیادی حق اور زندگی کا اہم جزو ہے۔ اس ترقی یافتہ اور سائنس کے دور میں بھی نصیرآباد کے عوام صحت جیسی بنيادی ضرورت سے محروم ہیں۔ نصیرآباد میں زچگی کی شرح اموات کی صورت حال تشویش ناک ہے۔ اب بھی دیہی علاقوں میں جیسے کہ چھتر، نوتال، میر حسن، تمبو جیسے پسماندہ علاقوں سے زچگی کی اموات رپورٹ نہیں ہوتیں۔ نصیرآباد میں ہر سال کئی خواتین اور بچے طبی سہولت کے نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
یہاں کے لوگوں کو زندگی کی دیگر سہولیات کے فقدان کے ساتھ ساتھ صحت جیسی سہولت سے بھی دور رکھا گیا ہے۔ ہمیں علاج معالجے کی بھی کوئی سہولت دست یاب نہیں۔ نصیرآباد میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ملیریا سميت جلد، ہیپاٹائٹس بی اور سی کے امراض میں بھی کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مليریا، دمہ سمیت یہاں کے بچوں میں ہیضہ اور كالرا جیسے موذی مرض عام ہو چکے ہیں۔غربت اور پسماندگی کی وجہ سے بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ بروقت علاج کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے بچے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ نصیرآباد میں کم و بیش 17 بیسک ہیلتھ یونٹس ہیں۔ ان تمام کا حال برا ہے۔ ان میں آپ کو علاج تو دور کی بات وہاں ایک پین کلر تک نہیں جو ایمرجنسی میں دی جا سکے۔ بیسک ہیلتھ یونٹ میں کوئی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مریض کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ڈیرہ مراد جمالی ريفر کیا جاتا ہے تو روڈ نہ ہونے کی وجہ سے مریض ڈاکٹر کے پاس پہنچنے سے پہلے کہیں اور پہنچ جاتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی خوش نصیب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرہسپتال پہنچ بھی جائے تو ہسپتال میں کوئی سہولت نہیں۔ علاج کے لیے ڈاکٹر تک موجود نہیں۔ عملاً غیرحاضر اور میڈیسن کا نہ ہونا ایک المیہ ہے۔
حکومتِ بلوچستان سالانہ بجٹ میں صحت کی مد میں تین سے چار ارب مختص کرتی ہے۔ اس سال بھی حکومتِ بلوچستان نے شعبہ صحت میں ہیلتھ کارڈ کے لیے ساڑھے 5 ارب جب کہ ادویات کی خریداری کے لیے 4 ارب 88 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ اس کی نسبت دیکھا جائے تو ڈسٹرکٹ نصیرآباد میں سالانہ 4 سے 5 کروڑ کی میڈیسنز آتی ہیں۔ صحت کارڈ کی مد میں سالانہ 6 سے 7 کروڑ فنڈنگ ہوتی ہے۔
،یونی سیف ورلڈ ہیلتھ پروگرام سميت مختف سوشل آرگنائزیشنزفنڈنگ کرتی ہیں۔ ان سب کے باوجود ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خالی کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہے۔ پی پی ایچ آئی جو صحت کا اداره ہے، وه بھی کریپشن کی وجہ سے ناکام ہو چکا ہے۔ بلوچستان کے دوسرے ڈسٹرکٹ کی نسبت دیکھا جائے تو نصیرآباد میں کریپشن زیادہ ہے۔
کرپشن کوئی لاکھ دو کی نہیں۔ دوائی کی مد میں سالانہ چار سے پانچ کروڑ تک کریپشن کی جاتی ہے۔ پولیو کی مد میں لاکھوں کی کریپشن ہوتی ہے جس میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ملوث ہوتا ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے اپنے اداروں مضبوط کرنے کے بجائے نصیرآباد میں عطائی ڈاکٹرز کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ہر گلی محلہ میں آپ کو کئی عطائی ڈاکٹر دیکھنے کو ملیں گے۔ انتظامیہ نے صحت کے نام پر کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ ان کو پیسوں کی لالچ اور ہوس نے اندھا کردیا ہے۔
غیرپروفیشنل عطائی ڈاکٹرز کی وجہ سے ہیپاٹائٹس جیسی محلق بیماریاں ایک مریض سے دوسرے مریض میں منتقل ہو رہی ہیں جو انسانی زندگی کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ اس کرپٹ نظام کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی۔ اس کے لیے نصیرآباد کے وہ نوجوان جو معاشی اور سیاسی مشکلات میں گھیرے ہوئے ہیں۔ ان کو چاہے اس کرپٹ ٹولے کے خلاف اقدام اٹھانے ہوں گے۔ ان کے خلاف جو اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کرعوام کا خون چوس رہے ہیں۔ ایک دن ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو گا مگر ہمیں متحد ہو کراجتماعی دانش اور سیاسی فکر سے ان کرپٹ، نصیرآباد ڈسٹرکٹ میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ٹولے کو نشان دہی کرنا ہو گی۔
اقتدار اور طاقت کے نشے میں جو خود کو بالاتراورناقابلِ شکست سمجھ رہے ہیں، ہمیں مل کر ان کو شکست سے دوچار کرنا ہو گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں