یوسف بلوچ
بلوچستان کے شہر خضدار میں قائم بلوچستان یونیورسٹی آف انجینرئنگ اینڈ ٹیکنالوجی چھاونی کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں طلبا اپنے مطالبات منوانے کے لیے اب جامعہ کے ایڈمن بلاک کے سامنے دھرنے کی صورت میں علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں اور ایڈمن بلاک،بند کیا ہوا ہے۔
طلبا کے مطابق دھرنے میں موجود طلبا پر اب نسلی پروفائلنگ جاری ہے اور کئی طلبا و طالبات کے گھر فون کرکے سرپرستوں کو ڈرایا،دھمکایا جا رہا ہے۔
طلبا کی علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں حق دو تحریک کے رہنما ہدایت الرحمن بلوچ 17 جولائی کو اظہار یکجہتی کرنے پہنچے۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی اور صوبائی انتظامیہ سے اپیل کی کہ بلوچستان کے مستقبل کو تعلیمی حقوق کی خاطر بھوک ہڑتالی کیمپ کے بجائے کلاسز میں پڑھنے دیں۔ انہوں نے طلبا پر پولیس گردی کی مذمت بھی کی۔
دریں اثنا بلوچ طلبا تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں طلبا کے مطالبات کی حمایت کی گئی اور اس مسئلے کی حل کے لیے زور دیا گیا۔ مرکزی اعلامیہ میں اس عزم کو دہرایا گیا کہ بساک آئینی حقوق کے لیے جہدوجہد کرنے والے طلبا کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی۔
بیوٹک خضدار میں طلبا کا احتجاج رواں سال مئی میں پہلی بار دس مطالبات کے حل طلبی کے لیے شروع ہوا تھا۔ احتجاج میں طلبا نے تدریسی عمل کا بائیکاٹ کیا تھا۔
اس کے پیش نظر گورنر بلوچستان کی جانب سے مطالبات کی حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں موجودہ کنٹرولر امتحان کی برطرفی کا مطالبہ شامل تھا۔
طلبا شکوہ کرتے ہیں کہ متعلقہ کنٹرولر تلاشی کے نام سے طلبا کی تضحیک کرتا تھا جس کے خلاف بارہا شکایت کی گئی لیکن ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بیوٹک میں زیرِتعلیم ایک طالب علم نے بتایاکہ، کنٹرولر اپنے رویے کی درستگی کے بجائے طلبا کو ہراساں کرتا تھا۔ گورنر کمیٹی کے بعد کنٹرولر کے خلاف کارروائی جامعہ ایڈمن کی ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کنٹرولر کی رویے کے بعد طلبا نے اپنے پرانے مطالبات پسِ پشت ڈال کر کنٹرولر کی برطرفی یا اسے دوبارہ اپنے منصب پر لانے کی مطالبے کو ترجیح دی گئی کیونکہ یہ سنگین ہے۔
گیارہ جولائی کو کیا ہوا
گیارہ جولائی کو طلبا کی قائم احتجاجی دھرنے کو سبوتاژ کرنے کے لیے پہلے فورسز کو بلایا گیا۔ پھر پولیس کی بھاری نفر جاہِ احتجاج پہنچا دی گئی اور طلبا پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ جن میں سے تقریباً آٹھ طلبا زبردستی دھر لیے گئے اور نہیں تھانہ لے جایا گیا۔ موجود طلبا بتاتے ہیں کئی طلبا پر لاٹھی چارج کرنے کے بعد ان کے موبائل فون ضبط کر لیے گئے۔
احتجاجی کیمپ کو پولیس نے تھوڑا اور ٹینٹس ضبط کر لیے گئے۔ طلبا کا دعوی ہے کہ ٹینٹ شاپ کو بھی انتظامیہ نے طلبا کو ٹینٹ مہیا کرنے کی پاداش میں سیل کر دیا ہے۔
بعد ازاں گرفتار طلبہ کو اسی وعدے کے ساتھ چھوڑا گیا کہ وہ دوبارہ احتجاجی عمل میں شریک نہیں ہوں گے۔ پولیس نے ضبط ٹینٹ بھی طلبا کو واپس کر دیے تھے۔
طلبا کی پریس کانفرنس
پندرہ جولائی کی شب طلبا گرینڈ الائنس نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ کانفرنس میں طلبا نے میڈیا نمائندگان کو بتایا کہ ہمارے ٹینٹ دوبارہ ضبط کر لیے گئے ہیں،انہیں یونیورسٹی لے جانے سے روکا جا رہا ہے۔
طلبا کی پریس کانفرنس جامعہ کے مرکزی گیٹ کے سامنے ہوئی۔ طلبا بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی نے ہمارے لیے اندر جانے کے دروازے بند کیے ہیں ہمیں مجبوراً باہر بیٹھنا پڑ رہا ہے۔
جامعہ انتظامیہ نے دوبارہ پولیس بلا کر طلبا سے ٹینٹ چھین لیے ہیں اور ٹینٹ مالک کو پولیس اور جامعہ انتظامیہ کی جانب سے دھمکی بھی دی جا رہی ہے۔
طلبا نے کنٹرولر کی برطرفی تک اپنا احتجاج مین گیٹ کے سامنے جاری رکھا ہے اور جس میں کثیر تعداد میں طلبا و طالبات شریک ہیں۔
طلبا نے میڈیا کو مزید بتایاکہ "ہم تین دن تک علامتی بھوک ہڑتال کیمپ پر جا رہے ہیں اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو تا دم مرگ بھوک ہڑتال کی جائے گی۔
طلبہ شکوہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی طلبا کا گھر ہوتا ہے لیکن ہمیں نہ صرف اپنے گھر میں تضحیک آمیز رویے کا سامنا ہے بلکہ ہم پر جسمانی تشدد اور پولیس گردی بھی کی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جامعہ کو فوجی چھاونی بنایا گیا یے جو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں