جمیل بزدار
پاکستان کی پالیسیاں روز بدلتی شام کی طرح بدل جاتی ہیں۔ یہ کبھی اِس بلاک تو کبھی اُس بلاک میں چھلاؤں کی طرح چھلانگیں لگاتا ہے۔ یہی تاثر اس کی پالیسیوں میں ہوتا ہے۔ یہ کبھی آئی ایم ایف کے کہنے پر اپنی پالیسیاں مرتب کرتا ہے تو کبھی راتوں رات ریاستِ مدینہ کا خواب۔ ان پالیسیوں سے جہاں معیشت پر اثر پڑتا ہے وہیں سماجی رویوں پر بھی کافی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فی الوقت ہم ان پالیسیوں میں سے صرف ایک یعنی خیراتی اداروں پر بات کرتے ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے کیا اور اس کا مقصد دیہات کے غربا کو سبسڈی فراہم کرنا تھا۔ یہ یقیناً آئی ایم ایف کی ایما پر ہوا۔ آئی ایم ایف کسی بھی انڈسٹری یا اکنامک گروتھ کے پروجیکٹ کو فنڈ نہیں کرتا۔ خیراتی اداروں سے چوں کہ معاشرے میں کاہلی سستی زیادہ پیدا ہوتی ہے، اس لیے وہاں استحصال اور آسان ہو جاتا ہے
اخلاقی روایات کی پامالی
معاشرے میں اخلاقی روایت ایک دن میں نہیں بنتیں، اس میں صدیاں لگتی ہیں۔ یہ روایات کوئی ایک شخص بھی تشکیل نہیں دیتا بل کہ ان کو بنانے میں پورے سماج کا کردار اہم ہوتا ہے۔ یہ اخلاقیات ہر لحاظ سے معاشرے کو صحت مند رہنے اور آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ آئیے ہم اس کو ایک عام مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے کوہِ سلیمان خصوصاً پہاڑی علاقوں میں آج سے دس بیس برس پہلے کوئی بھی مہمان آتا تو اس کی بھرپور مہمان نوازی کی جاتی تھی۔ حالاں کہ آج سے بیس برس قبل کوہِ سلیمان کی معاشی صورت بتانے کی ضرورت نہیں۔ وہاں کام کے لیے سب مل کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے۔ عورتیں ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک ہوتیں۔ اپنے ہاتھ سے چیزیں بنا کر بیچا کرتی تھیں یا مرغیاں اور دنبے پال کر گزارا کرتیں۔ یعنی ہر لحاظ سے خود مختار زندگی گزار رہی تھیں۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے تک گوارا نہ کرتیں۔ وہیں مرد حضرات غیرت کی وجہ سے معمولی بیماری سے لے کر زچکی تک کسی ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس انہیں نہ لے جاتے۔ بازار سے سامان کپڑے اکثر مرد لے کر آتے۔
لیکن جب سے بے نظیر انکم سپورٹ یا احساس کے نام پر لوگوں کو خیرات دی جانے لگی، یقین کریں خود داری کب کی ہم سے روٹھ چکی ہے۔ ہماری مہمان نوازی کی خوب صورت پری ہم سے ناراض ہو کر کوہِ قاف کو جا چکی۔ ہمارے میلے، ہمارے اکٹھ ، ہماری مجلسیں سب ویران ہو چکی ہیں۔ ہم اب بغیر مطلب سے کسی سے سلام دعا تک نہیں کرتے۔ ہماری خوددار عورتوں نے اپنی ہاتھ کی محنت چھوڑ دی ہے اور وہ ہر ماہ خیراتی پیسوں کے لیے لائنوں میں لگی ہوئی ہیں جہاں کوئی انھیں برابھلا کہتا ہے، کوئی ان کی چادر کی پامالی کرتا ہے۔ ہم سب یہ تماشا دیکھ رہے ہیں اور بے بس ہیں۔ ہمارے اندر خودداری کا خوب صورت پھول مرجھا چکا ہے۔
کیا ہر جگہ ایسا ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ اس کے لیے ہم قریبی ہمسائے بنگلہ دیش کی مثال لیتے ہیں کہ جہاں چھوٹی انڈسٹریز ڈیولپ کی گئی ہیں۔ وہاں گھریلو خواتین کو سکلز سکھا کر ان کو کام دلایا جاتا ہے۔ سلائی مشین، پیکنگ، ریڈی میڈ اشیا، الیکٹرانکس سمیت مختلف قسم کی اشیا وہاں گھروں میں تیار ہوتی ہیں۔ جس سے نہ صرف ملکی اکانومی بدلی ہے بل کہ لوگوں میں خودداری کے ساتھ ساتھ سکلز بھی آئی ہیں اور بحیثیت معاشرہ ان کی اخلاقیات بھی کافی بہتر ہوئی ہیں۔
حل کیا ہے؟
عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ ہونے پر جہاں کوہِ سلیما ن میں چھوٹے بڑے پراجیکٹس ملے، وہیں چند منفی رجحانات نے بھی جنم لیا جن میں پناہ گاہوں اور خیراتی اداروں کا اضافہ کرکے لوگوں کو ڈپنڈنٹ بنا دینا، لوگوں میں سکلز اورینٹڈ کوئی پروجیکٹ نہ دینا اور نہ نوجوانوں کو اداروں میں جگہ دی گئی۔
جب کہ سماجی بہتری میں بنیادی کردار تو نوجوانوں نے ادا کرنا ہے۔ عوام کو اویرنیس دینا کہ وہ کب تک ان خیراتی اداروں پر بھروسہ کرتے رہیں گے اور یہ بات واضح ہے کہ یہ ادارے زیادہ دیر تک نہیں چلیں گے۔
سیاسی لوگوں کو اپنی حکمتِ عملی میں ان خیراتی اداروں کے الٹرنیٹ سکل اوینٹڈ بزنس پلان تشکیل دینے ہوں گے۔
معاشرے میں موجود مخیر حضرات کو ان علاقوں میں ایسی انڈسٹریز یا بزنسز کا آغاز کرنا چاہیے جو ان خیراتی اداروں سے بہتر مستقبل دے سکیں۔
یقیناً یہ کام کسی ایک فرد کا نہیں بل کہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے سماج کو اس چنگل سے نکال کر ایک خودمختار سماج کی طرف لے جائیں جہاں ہم اپنی چادر اور پاغ پر فخر کریں اور اس کے اچھالنے والے کو جواب دے سکیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں