خصوصی رپورٹ
معروف خبررساں ادارہ یو این اے نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک
رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بلوچستان کے 250 سے زائد سرکاری اسپتالوں کے
صرف کاغذوں میں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ 656 طبی مراکزجزوی طور پر ہی فعال ہیں،
بلوچستان کے پچاس فیصد بنیادی مراکز صحت بند پڑے ہیں، 80 فیصد اسپتالوں میں لیڈی
ڈاکٹرز موجود نہیں، 50 فیصد سے زائد اسپتالوں میں ڈاکٹرز ڈیوٹیوں سے غائب، فنڈ
جاری نہ ہونے کے باعث صوبے میں ادویات کی فراہمی شدید متاثرہے۔
تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں ڈھائی سو سے زائد سرکاری اسپتالوں کا وجود صرف کاغذات میں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی بلوچستان میں صحت کی سہولیات سے متعلق رپورٹ کے مطابق صوبے میں سرکاری دستاویزات میں 1661 اسپتال، بنیادی مراکز صحت، رورل ہیلتھ سینٹرز اور دیگر طبی مراکز ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 257 طبی اداروں کا وجود صرف فائلوں کی حد تک محدود ہے، اس کے علاوہ 656 طبی مراکز جزوی طور پر ہی فعال ہیں۔ اندرونِ صوبہ عوامی نمائندوں کے مطابق بلوچستان کے پچاس فیصد بنیادی مراکزِ صحت بند پڑے ہیں۔
جعفرآباد کے ضلعی ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اللہ یار کے ڈی ایچ کیو اسپتال میں
10 لیڈی ڈاکٹرز تعینات ہیں مگر صرف 2 ڈیوٹی سرانجام دیتی ہیں۔ ضلع جعفرآباد میں 5
بیسک ہیلتھ یونٹس میں سے صرف ایک ہیلتھ یونٹ میں لیڈی ڈاکٹر تعینات ہے۔ نوشکی میں
میر گل خان نصیر ٹیچنگ ہسپتال میں تینوں لیڈی ڈاکٹرز ڈیوٹی سے غائب ہیں جب کہ 4 آر
ایچ سیز اور 10 بنیادی مراکز صحت میں کوئی ڈاکٹر ڈیوٹی پر موجود نہیں ہے۔
دالبندین کے پرنس فہد ہسپتال میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر 3 لیڈی ڈاکٹرز
تعینات ہیں مگر صرف ایک ہی ڈیوٹی پر موجود ہے۔ حب میں جام غلام قادر ہسپتال میں
میل ڈاکٹرز22، خواتین ڈاکٹرز24، فارماسسٹس10، ڈینٹل سرجن 9، نرسز 25، پیرامیڈیکس
36 ہیں، ایڈہاک پر7 ڈاکٹر تعینات ہیں، لیکن سرجن سمیت اس وقت صرف 3 ڈاکٹرز ڈیوٹی
پر موجود ہیں۔ تفتان کے ایک بنیادی مرکز صحت میں ایک ڈاکٹرتعینات ہے جب کہ خاتون ڈاکٹر
موجود نہیں ہے۔ سنجاوی میں ایک ہسپتال، پانچ بنیادی مراکزِ صحت میں تین میل ڈاکٹرز
تعینات ہیں جب کہ پانچ سال سے ایک بھی خاتون ڈاکٹر نہیں ہے۔
کوئٹہ کے سول ہسپتال، بولان میڈیکل کمپلیکس، فاطمہ جناح جنرل چیسٹ
انسٹیٹیوٹ، شیخ زید ہسپتال کوئٹہ، بے نظیر ہسپتال، مفتی محمود میموریل ہسپتال میں
ڈاکٹرز کی کمی ہے۔محکمہ صحت کا دعویٰ ہے کہ روزانہ ایک ہزار سے زائد افغان باشندے
بھی کوئٹہ کے سرکاری ہسپتالوں میں اپناعلاج کرواتے ہیں۔
واضح رہے کہ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق شعبہ صحت نے گزشتہ مالی سال
کے دوران انتظامی نااہلی کے باعث ادویات کی مد میں ایک ارب سے زیادہ رقم بروقت خرچ
نہ کرکے لیپس کر دی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں