{ads}

ایڈیٹر


کہنے کو تو بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران درجن بھر یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں لیکن آج بھی پبلک سیکٹر کی مکمل یونیورسٹی ایک ہی جامعہ بلوچستان ہے جو تیس سے زائد ڈسپلن رکھتی ہے۔ اور صوبے کی یہ واحد یونیورسٹی مستقلاً چند برس کے وقفے سے کسی نہ کسی بحران کا شکار رہتی ہے۔ یہ بحران ایک بار پھر جاری ہے۔

گزشتہ تین ماہ سے بلوچستان یونیورسٹی کے اسٹاف کو تنخواہیں ادا نہیں کی جا سکیں جس کے باعث یکم مارچ سے یونیورسٹی مسلسل بند ہے۔ حیرت ہے کہ یہ خبر ملکی تو کیا صوبائی سطح پر بھی کم حقہ توجہ حاصل نہیں کر پائی۔ ایک ہزار کے قریب اسٹاف مالی مسائل اور سولہ ہزار سے زائد طلبا کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے مگر نہ وفاقی نہ صوبائی حکومت اب تک اس بحران کو حل کرنے کی جانب کوئی پیش رفت کر پائی ہے۔

یونیورسٹی بحران سے متعلق حال حوال پہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کو اخراجات کی مد میں مجموعی طور پر تین ارب روپے کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ ایچ ای سی اور صوبائی حکومت کی جانب سے ملنے والے فنڈز اور اس کی اپنی آمدن کل ملا کر دو ارب روپے کے قریب ہے، گویا اسے سالانہ ایک ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ جب کہ یونیورسٹی کے اپنے ذرائع کے مطابق یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ آٹھ سو فیصد خسارے کا شکار ہے۔

صوبے کی واحد مکمل جامعہ کے حوالے سے یہ اعدادوشمار لمحہ فکریہ ہیں۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان یونیورسٹی بیک وقت دو بحرانات کا شکار ہے؛ ایک انتظامی بحران اور دوسرا مالی بحران۔ انتظامی بحران کی پھر دو صورتیں ہیں؛ ایک سیاسی طور پر ہونے والی بھرتیاں اور دوسرا ایک طویل عرصے سے یونیورسٹی کو کوئی ایسا سربراہ نہیں مل سکا جو اس کی سمت درست کر سکے۔

موجودہ وائس چانسلر کی مدتِ ملازمت ختم ہونے پر گزشتہ ماہ چانسلر یعنی گورنر نے انھیں فارغ کر دیا تو یہ عدالت پہنچ گئے اور عدالت نے انھیں عہدے پر بحال کر دیا۔ یہ ملکی سیاست کی طرح صوبے کی سیاست میں بھی عدلیہ کی بے جا مداخلت کی ایک بھدی مثال ہے۔ چانسلر صوبے کی یونیورسٹیوں کے معاملے میں بااختیار اور سپریم عہدہ ہے۔ اس کے اختیارات میں عدلیہ کی مداخلت بے جا اور یونیورسٹیوں کے انتظامی معاملات کو بگاڑنے کے مترادف ہے۔ جب کہ انھوں نے وائس چانسلرز کو کسی الزام کے تحت برطرف نہیں کیا بلکہ ان کی مدتِ ملازمت ختم ہونے پر فارغ کیا، جو ایک جائز انتظامی معاملہ تھا، اس میں عدالت کی مداخلت بے جا تھی، جس کا نقصان یونیورسٹی اب تک اٹھا رہی ہے۔

 دوسری جانب مالی بحران ہے جو ہر دوسرے تیسرے سال سر اٹھاتا ہے، جس کے لیے یونیورسٹی کو بار بار ایچ ای سی یا صوبائی حکومت سے بیل آؤٹ پیکیج لینا پڑتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی کے محفوظ مستقبل کے پیشِ نظر ان مسائل کا مستقل حل ضروری ہے۔

انتظامی بحران کے لیے لازم ہے کہ یونیورسٹیوں کے اندر سیاسی مداخلت ختم کی جائے۔ اہل وائس چانسلر کو منتخب کیا جائے اور ان کی مدتِ ملازمت ختم ہونے سے پہلے ان کی جگہ آنے والے وائس چانسلر کا انتخاب ہو جانا چاہیے تاکہ اس معاملے کو عدالت میں جانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔

اسی طرح مالی بحران کا مستقل حل نکالنا بھی ضروری ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد چوں کہ تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے اس لیے صوبائی حکومت کو اس بارے میں ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یونیورسٹیز کے لیے ان کی ضروریات کے مطابق سالانہ بجٹ مختص کیا جائے۔ مستقل حل کے لیے ضروری ہے کہ یونیورسٹی کے لیے چند ارب روپے سِیڈ منی کے بطور بینک اکاؤنٹ میں رکھوا دیے جائیں جس کے منافع سے کم از کم ماہانہ تنخواہوں کا مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ گو کہ پہلے سے خسارے کے بجٹ کا شکار بلوچستان حکومت کے لیے یہ اتنا آسان نہ ہو گا لیکن اس کے لیے صوبے کی معدنیات سے مستفید ہونے والی بین الاقوامی کمپنیوں کی مدد لی جا سکتی ہے۔ سیندک اور ریکوڈک جیسے پراجیکٹ سے یونیورسٹیز کے لیے چند ارب روپے نکلوانا کچھ ایسا کارِ دارد بھی نہیں۔

اسی طرح یونیورسٹی کو بھی چاہیے کہ اپنے لیے مستقل ذرائع آمدن کا انتظام کرے اور یہ فیسوں میں اضافے کے ذریعے نہیں بلکہ کمرشل پراجیکٹس کے ذریعے ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر بلوچستان یونیورسٹی سبزل روڈ کے ساتھ موجود کیمپس میں کمرشل پلازہ اور رہائشی فلیٹس بنا کر اچھا خاصا ریونیو پیدا کر سکتی ہے جو اس کی آمدن میں مستقل اضافے کا باعث ہو گا۔ اسی طرح دیگر کمرشل پراجیکتس پہ بھی سوچا جا سکتا ہے۔

الغرض یونیورسٹی بحران کا مستقل حل نکالے بغیراس کا مستقبل محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔ عارضی نوعیت کے حل مستقبل میں مزید مسائل کا باعث بنتے رہیں گے۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی