قادر نصیب چھتروی
نصیرآباد، جعفرآباد، صحبت پور، لہڑی، سبی ، جھل مگسی سمیت پورے بلوچجستان کا کوئی بھی کونا ہو، تعلیمی تباہی کے دہانے پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ سیکڑوں بوگس اسکولوں کا انکشاف ہے، جہاں ہزاروں گھوسٹ ماسٹروں کی موجودگی واضح ہے۔ تباہ حال تعلیمی اداروں پر نظر نہ کیے جانے کے ساتھ کھنڈرات نما عمارتوں میں بیٹھ کر پڑھنے والے معصوم بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں تو وہیں انھیں کسی بھی قسم کی سہولت نہ ملنا بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
خیر یہ تو ایک الگ دکھ ہے مر اس وقت جو خطرناک صورت حال درپیش ہے وہ ہے کم سن بچوں میں نقل کا بڑھتا ہوا رجحان۔ نقل ایک ناسور ہے، یہ کہنا بہت آسان ہے لیکن اگر اس پر سوچا جائے تو یہ وہ تباہی ہے جو پورے معاشرے کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس وقت کون نہیں جانتا کہ کہاں اور کن کن تعلیمی اداروں میں نقل نہیں کی جا رہی؟
سب کو پتہ ہے کہ ہر جگہ نقل سرعام جاری ہے اور شرم کا مقام تو تب آتا ہے کہ جب استاد نام کی عظیم شخصیت پر داغ جیسے لوگ خود اس میدان میں اپنے شاگردوں کو نقل کرواتے دیکھے جاتے ہوں اور ایسا ہونا اب عام سی بات ہو چکی ہے۔ یعنی ہم اب انتہائی زوال کو جا پہنچے ہیں۔
رپورٹ ہونے والے شواہد دیکھیں تو تعلیمی اداروں کی حالت پر شرم کے ساتھ ترس بھی آتا ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے اور اب تو پرائمری کے بچوں کو بھی نقل کی جانب مائل کرنے جیسی ایک قبیح رسم شروع کی جا چکی ہے۔ کیا لکھیں کہاں تک لکھیں!
یہ کون نہیں جانتا کہ اب نقل کس حد تک جا پہنچی ہے۔ مگر کیا اس کے خلاف اس طرح کی ہماری مجرمانہ خاموشی ہمیں گنہ گار نہیں بنا رہی؟ اگر آپ اور ہم سب مل کر اس کے خلاف آواز اٹھائیں، نقل کی روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں، تو شاید اس ناسور کو جڑ سے اکھڑ کر پھینکا جا سکتا ہے۔
آئیں مل کر ساتھ چلیں، نقل کرنے اور نقل کروانے والوں کا راستہ روکیں۔ آواز اٹھائیں، ثبوت بنائیں اور نقل کے رجحان کا خاتمہ کریں۔
ایک تبصرہ شائع کریں