یوسف بلوچ، شکور بلوچ
صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں جامعہ بلوچستان کے اساتذہ، آفیسران اور ملازمین کی مشترکہ تنظیم جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے تین مہینوں سے جامعہ میں ملازمین کی تنخواہ کی عدم ادائیگی کے خلاف یونیورسٹی میں کلاسز اور انتظامی امور کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔
مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے پر 10 اپریل کو جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بلوچستان یونیورسٹی سے صوبائی ریڈزون میں واقع صوبائی اسمبلی تک مارچ کیا اور وہاں دھرنا دیا۔
شرکا نے جامعہ بلوچستان کے سامنے علامتی طور پر کشکول، خیرات اور زکوت مہم بھی چلائی۔ ،مظاہرین نے علامتی طور پر اپنی کتابیں اور ڈگریاں بیچیں اور ساتھ ساتھ مختلف سبزیوں اور پھلوں کے اسٹال بھی لگائے۔ احتجاجی مظاہرے میں بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، بیوٹمز کوئٹہ اور لسبیلہ یونیورسٹی آف میرین سائنسز لوامز کے ملازمین و آفیسعز نے بھی شرکت کی۔
مقررین کا مؤقف ہے کہ تین ماہ سے جامعہ کی تنخواہ کی ادائیگی کے ساتھ، سینیئر اساتذہ کے پروموشن آرڈر بحال کیے جائیں اور جامعہ بلوچستان سے نااہل وائس چانسلر کو بھی برطرف کیا جائے۔
بجٹ کا مسئلہ
مرکزی صدر جوائنٹ ایکشن کمیٹی پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ نے بتایا کہ جامعہ میں پچھلے تین ماہ سے ملازمین، اساتذہ اور آفیسرز کی تنخواہ کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ انھوں نے مؤقف اپنایا کہ جامعہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمن نااہل ہیں۔ ان کے دور میں جامعہ بلوچستان کی رینکنگ کم ہو گئی ہے اور طلبا کے داخلے کم کرکے بھی جامعہ کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ نے بتایا کہ "جامعہ بلوچستان کو سالانہ تنخواہوں اور پنشن کی مد میں 26 کروڑ کی ضرورت ہوتی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے جامعہ کو گرانٹ کی شکل میں 48 کروڑ روپے دیے جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سالانہ 98 کروڑ روپے جامعہ بلوچستان کو ادا کیے جاتے ہیں اور یونیورسٹی کی اپنی کل آمدن 35 سے 40 کروڑ روپے ہے، لیکن یونیورسٹی کو مجموعی طور پر سالانہ 3 ارب روپے کی ضرورت ہوتی ہے جسے بمشکل 2 ارب روپے ہی مل رہے ہیں۔
کلیم اللہ بڑیچ کا کہنا ہے اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو جامعہ مستقل بند رہے گی۔ اگر یہ سلسلہ بند نہیں کیا گیا تو ہم احتجاج کا دائرہِ کار پورے صوبے تک بڑھائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت فوری طور پہ جامعہ کے لیے دو ارب جب کہ مرکزی حکومت تین ارب روپے گرانٹ جاری کرے تاکہ صورت حال کنٹرول ہو سکے۔
مسائل کا انبار
یاد رہے کہ رواں ماہ گورنر بلوچستان نے وائس چانسلر کو مدت ختم ہونے پر برطرف کیا تھا لیکن وی سی نے بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کر کے اپنے آرڈر دوبارہ بحال کروا لیے۔ بلوچستان یونیورسٹی ایکٹ کے تحت وائس چانسلر کی معیادِ ملازمت تین سال رکھی گئی ہے لیکن موجودہ وائس چانسلر کو معاہدے کے تحت چار سال دیے گئے تھے۔
صدر آفیسرز ایسوسی ایشن نزیر لہڑی کا کہنا تھا کہ گزشتہ گزشتہ تین مہینوں سے ہم تنخواہوں سے محروم ہیں، جامعہ گزشتہ کئی سالوں سے شدید مسائل کا شکار ہے۔ آفیسرز کے پروموشن، ملازمین کا ٹائم سکیل گزشتہ چھ سالوں سے تاخیر کا شکار ہے۔
دو ہزار بائیس میں پاس ہونے والے ایکٹ میں جامعہ کی فیصلہ ساز باڈیز میں طلبا تنظیموں، ایسوسی ایشنز و ممبر صوبائی اسمبلی کی نمائندگی ختم کر دی گئی۔ سینیٹ اور سنڈیکیٹ میں ہمیں نمائندگی دی جائے تاکہ جن باڈیز میں ہمارے فیصلے ہوتے ہیں، ہم کم از کم وہاں موجود ہوں اور اپنا دفاع کر سکیں۔
صدر جامعہ بلوچستان ایمپلائز ایسویسی ایشن شاہ علی بگٹی کا کہنا تھا بلوچستان یونیورسٹی کی موجودہ صورت حال اٹھارہویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبائی حکومت کے پاس آنے کی وجہ سے بنی ہے۔
جامعہ بلوچستان کے ملازمین کو وہ مراعات اور الاؤنسز نہیں مل رہے جو صوبائی سیکرٹری یا کسی بھی دوسرے ادارے کے ملازمین کو ملتے ہیں۔
تنخواہیں نہ ملنے کے سبب جامعہ کے ملازمین کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کئی ملازمین ایسے ہیں جن کے گھروں میں فاقے پڑے ہیں، ان کے بچوں کو سکولوں سے نکالا گیا ہے۔ کئی ایسے ملازمین ہیں جو رکشہ کا کرایہ نہ ہونے کے سبب احتجاج میں بھی شرکت نہیں کر سکتے۔
جامعہ کی انتظامیہ کا مؤقف کیا ہے؟
ہم نے کلیم بڑیچ کے الزامات کے جواب میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا مؤقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا تو انھوں نے جامعہ کے ٹریژرار (خزانچی) جیئند خاں جمالدینی سے رابطہ کرنے کا کہا۔
جیئند جمالدینی نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ وی سی کی تعیناتی کا مسئلہ عدالت میں ہے اور اس معاملے پہ عدالت ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے۔
جیئند جمالدینی نے بتایا کہ "وائس چانسلر سمیت تمام ملازمین، اساتذہ اور افسران کی تنخواہیں پچھلے تین مہینوں سے واجب الادا ہیں۔ تقریباً 580 سے زائد ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن بھی ادا نہیں کی گئی"۔
ان کا کہنا ہے کہ، "طلبا کی مد میں ایچ ای سی کوئی رقم نہیں دیتا، البتہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے طلبا کی مالی معاونت کی جاتی ہے۔ ایچ ای سی کی گرانٹ گزشتہ سات برسوں سے نہیں بڑھائی گئی ہے جس کے باعث جامعہ کا بجٹ خسارے کا شکار ہے"۔
انھووں نے ایک اور وجہ جامعہ کے ریٹائرڈ ملازمین کو بتایا، جن کی پنشن کے پیسے ادا نہیں کیے گئے ہیں کیوں کہ بجٹ کم ہے۔
جیئند جمالدینی کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں تنخواہوں کی مد میں 45 فی صد اضافہ ہوا، اسی طرح پینشن کی مد میں پچاس فی صد اضافہ ہوا۔ اصولاً ایچ ای سی کو بھی یونیورسٹی کی گرانٹ میں اضافہ کرنا چاہیے تھا لیکن پانچ سالوں میں یونیورسٹی کی گرانٹ میں ایک فی صد بھی اضافہ نہیں ہوا۔ ساتھ ہی اس دورانیے میں 45 کے قریب ملازمین ریٹائر ہوئے جن کی پینشن کا اضافی بوجھ بھی جامعہ برداشت کر رہی ہے۔ اسی طرح بجلی، گیس اور پٹرول بھی مہنگے ہوئے ہیں جس کا اثر براہ راست جامعہ کے بجٹ پر پڑ رہا ہے۔
خزانچی جامعہ بلوچستان جیئند جمالدینی کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق ہائرایجوکیشن کمیشن کی جانب سے یونیورسٹی کو مکمل بجٹ کا 32.64 فی صد دیا جا رہا ہے۔ بلوچستان حکومت مجموعی مد میں 24.48 فی صد دیتی ہے اور یونیورسٹی کی کل آمدن مکمل بجٹ کا 16.85 فی صد ہے جب کہ جامعہ کے بجٹ میں خسارے کا تناسب 801.888 ہے۔
دستاویزات کے مطابق جامعہ بلوچستان میں اس وقت 16000 طلبا پڑھ رہے ہیں۔ جامعہ میں اساتذہ کی تعداد 474، آفیسرز کی تعداد 111 اور لوئر اسٹاف کی تعداد 918 ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر اگلے سال بجٹ نہیں بڑھایا گیا تو جامعہ بلوچستان سمیت بیوٹمز اور لسبیلہ یونیورسٹی آف میرین سائنس بھی مالی خسارے میں پڑ جائیں گے۔
سوشل میڈیا میں ایک فوٹو گردش کر رہا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مالی بحران کی شکار جامعہ کے وائس چانسلر کی تنخواہ اور مراعات بڑھائی گئی ہیں۔ جس پر جیئند جمالدینی نے مؤقف اختیار کیا کہ وائس چانسلر کی تنخواہ گورنر بلوچستان طے کرتا ہے، جامعہ نہیں۔ مذکورہ نوٹی فکیشن جعلی ہے۔
طلبا کا مؤقف
بالاچ قادر، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سیکریٹری اطلاعات ہیں۔ حالیہ ایشو پر انھوں نے اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ ہم جامعہ بلوچستان کے حالات کا سب سے زیادہ ذمہ ان لوگوں کو سمجھتے ہیں جنھوں نے ادارے کی باگ ڈور نااہل لوگوں کے حوالے کی، جامعہ بلوچستان میں میرٹ کی پامالی کرتے ہوئے پیرا شوٹرز کو اہم عہدوں پہ تعینات کیا گیا۔ حکومتی جماعت و دیگر سیاسی جماعتیں اس عمل میں ملوث ہیں۔
بحیثیت طالب علم ہم جامعہ بلوچستان کے بند ہونے کے حق میں نہیں لیکن ہمیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ ہمارے اساتذہ جنھیں دیگر شعبوں سے زیادہ توجہ ملنی چاہیے تھی، وہ آج مجبوراً جھولی پھیلا کر بھیک مانگ رہے ہیں۔
جامعہ بلوچستان میں صوبے بھر سے ہزاروں کی تعداد میں طالب علم زیرِتعلیم ہیں جن کا تعلیمی سال ضائع ہو رہا ہے۔ امتحانات ملتوی ہونے اور ڈگریاں نہ ملنے کے باعث کئی طالب علم ملازمت کے لیے اپلائی نہیں کر پا رہے۔ جامعہ کی بندش سے نہ صرف یونیورسٹی بلکہ جتنے بھی دیگر کالجز، یونیورسٹی سے منسلک ہیں، ان سب پہ اثر پڑ رہا ہے۔
ادارے کی بندش سے دور دراز علاقوں سے آنے والے طلبا جو یہاں کلاسز و امتحانات کی غرض سے آتے ہیں، زیادہ پریشان ہیں جو کوئٹہ میں کرایے کے کمروں میں رہتے ہیں اور بمشکل اپنا خرچہ چلاتے ہیں۔ ایسے بھی طالب علم ہیں جو اگر اپنے گھروں کو جائیں تو ان کے پاس کوئٹہ واپس آنے کا کرایہ نہیں ہے اور کوئٹہ میں رہیں تو بھوکا سونا پڑتا ہے۔
ملازمین کی صورت حال
عطا الرحمان جامعہ بلوچستان میں جونیئر کلرک ہیں، انھوں نے بتایا کہ ہمیں تین مہینوں سے تنخواہیں نہیں مل رہیں، آفیسر تو پھر بھی کسی نہ کسی طرح گزارا کرسکتے ہیں لیکن ہم چھوٹے ملازمین کے گھروں میں فاقہ چل رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ تنخواہ نہ ملنے کے سبب مجبوراً مزدوری شروع کی اور اب ایک دوست سے رکشہ لے کر اسے چلا رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے بڑے بیٹے کو اسکول سے نکال کر اسے بھی مزدوری پہ لگا دیا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں