گہور
مینگل
نفسیاتی جنگ ایک آزمودہ اور کارآمد ہتھیار ہے۔
دنیا کے اکثر طاقت ور ممالک اپنے دشمنوں کی شکست وریخت کے لیے یہی حکمتِ عملی
اپنائے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ دنیا کے کام یاب سیاست دان اور ماہرینِ نفسیات کا خیا ل
ہے کہ آپ نفسیاتی جنگ سے ایک بہادر سپاہی کو بزدل اور ایک شریف شہری کو ملک دشمن
دہشت گرد اور قاتل بنا سکتے ہیں۔ نفسیاتی جنگ کا مقصد کم زور اقوام کے افراد
پر جھوٹے پروپیگنڈے گھڑنا، ناجائز الزامات کے ذریعے سماج میں ان کا جینا
دوبھر کر دینا، اندرونی مداخلت و بیرونی طور پر دباؤ کے سرکل میں تنہا، ذلیل اور
رسوا کر کے جذبات سے کھیلنا، اپنے دلالوں کے توسط سے طرح طرح کی سازشیں رچا کر
معصوموں کے صبر کا امتحان لینا اور مختلف ہتھکنڈوں سے انھیں الجھائےرکھنا، یہ
تمام نفسیاتی جنگ کے چند وہ مہلک نقاط ہیں جو نوآبادکار عموماً محکوموں کو
زیر کرنے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔
متشدد و طاقت کے استعمال کی حکمتِ عملی کو جاری رکھتے ہوئے بلوچستان کے جبری الحاق کے بعد سے لے کر آج دن تک مقتدر قوتیں، بلوچ نسل کشی کو دوام بخشنے اور مکمل طورپر نیست و نابود کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے مستعمل بناتے ہوئے بلوچ کو قتل کررہے ہیں۔ ہر چڑھتے سورج کے ساتھ بلوچستان میں ظلم کی داستانیں رقم کی جا رہی ہیں۔ ناروا کارروائیاں بلوچستان میں روز کا معمول بن چکی ہیں۔
گزشتہ دنوں آواران کے علاقے گشکور،
غفورآباد سے ایک معلمہ نجمہ دلسرد کی خود سوزی کی خبر سوشل میڈیا پہ
گردش کرتی رہی۔ بلوچستان میں ایسے واقعات معمول کا حصہ ہیں جنھیں سمجھنے اور محسوس
کرنے کے لیے بلوچ ہونا پڑتا ہے۔ اس ملک میں بلوچوں کے لیے محض گم شدگی، اذیت، ذہنی
الجھنیں اور قتل و غارت ہی دست یاب ہیں جنھیں وہ ہر روز فراخ دلی سے قبول کرتے
ہیں۔
نجمہ بلوچ اپنے علاقے میں واقع جھونپڑی نما اسکول میں بچوں کو بہتر مستقبل دینے کے لیے تربیت و تعلیم دے رہی تھیں۔ یہ عمل جلاد صفت کچھ لوگوں کو ہضم نہ ہوا۔ لیویز کے مقامی اہلکار امیر بخش و دیگر جلادوں نے اپنی مکروہ خواہشات کے ذریعے ذہنی کوفت واذیت کا نشانہ بنا کر آخرکار ایک تخلیقی و عملی سوچ کو خود سودی پر مجبور کردیا۔ یہ خودکشی نہیں بل کہ ایک استانی کا ریاستی قتل ہے جسے کئی مہینوں کی بلیک میلنگ و ذہنی دباؤ کے بعد قتل کیا گیا۔
اس واقعے سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلوچستان میں کس حد تک لوگوں کو ایسے ناجائز و غیراخلاقی کاموں پہ مجبور و بلیک میل کیا جاتا ہے۔ نہ جانے نجمہ بلوچ جیسی کتنے معصوم ارواح کو امیر بخش جیسے درندوں نے ان کی مرضی کے برعکس زو زبردستی اور بلیک میلنگ کے ذریعے ایسے معیوب دھندے پہ مجبور کیا ہو گا۔
خودسوزی کسی صورت من چاہی موت نہیں کہی جا سکتی بل کہ یہ لازمی کسی جبری عمل اور بناوٹی حالات کی وجہ سے موت کو گلے لگانے پر مجبور کرتی ہے۔ بحیثیت بلوچ ہماری موت کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ نوآبادکار کی جبری مشقیں و حرکتیں ہوتی ہیں جنھیں بلوچستان کے باسی قوتِ سکت نہ ہونے سے بہ امر مجبوری قبول کرتے ہیں۔
حالات خواہ کیسے ہی کٹھن ہوں، طاقت ور قوتوں کے گماشتے کتنے ہی مکار و حوس پسند ہوں، ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے لیکن ایک معصوم روح ظالم و مکارکے سامنے کیسے جی سکتی ہے، جب جینے کی وجوہات اور اسباب ہی دم توڑ جائیں۔ راستے ختم ہو جائیں تو قومی غداری کی ذلت آمیز زندگی یا پھر موت میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں بانک نجمہ بلوچ کا انتخاب کردہ فیصلہ ہی بہتر ہے جہاں وہ قومی غداری کے بجائے للکارکی صدا بلند کیے ایک بڑی طاقت کو شکست دے کر ہمیشہ کے لیے جیتی، امر ہو گئی۔
نجمہ بلیک بورڈ پہ لکھتی ہے کہ میں تمھاری خواہشات اور منشا کو روند کر تمھیں پھر سے شکت دینے کی ٹھان چکی ہوں۔ وہ بلیک بورڈ پہ لکھتی ہے " The Story Ends here" یہ وہ للکار ہے جو بی بی زرینہ مری سے لے کر بی بی مہناز اور نجمہ دلسرد تک ان طاقتوں کے لیے پیغام ہے کہ تم طاقت کے نشے میں دھت ہمیں موت تک تو پہنچا سکتے ہو، ہمیں ٹارچر کرکے گم شدہ کرسکتے ہو، عقوبت خانوں کی نذر کرسکتے ہو، ہمیں اذیت دے کر کوفت میں مبتلا کرسکتے ہو، پر ہمارے ذہن سے اپنے وطن و مٹی کی محبت کو ختم نہیں کر سکتے۔ وطن کی ناموس کے لیے ہمیں موت بھی قبول ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں