{ads}

یوسف بلوچ


نبی دوست بگٹی آر ڈی پٹ فیڈر کنال کی حدود میں رہتے ہیں جس کی تحصیل سوئی اور ضلع ڈیرہ بگٹی  ہے۔ نبی داد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حال ہی میں نبی داد کے تیرہ سالہ  کم سن بھانجے شازین بگٹی نے غربت سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔

نبی دوست بگٹی نے بتایا، "شاہ زین کے والد گزشتہ بیس سالوں سے شدید علیل تھے۔ ان کو گردوں کی بیماری تھی، تین بار آپریشن کیا گیا اس کے بعد سے ایک گردے نے کام چھوڑ دیا تھا اور پھر موڈا خان فوت ہو گئے"۔

شازین، موڈا خان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ وہ اپنے چار بھائیوں اور ایک بہن کے لیے والد کی وفات کے بعد سے موچی گیری اور مزدوری کرتا تھا۔ اس کی ماں نے دوسری شادی کر لی تھی۔ شاہ زین اپنے گھر کا واحد کفیل اور سہارا تھا۔

شاہ زین اسکول میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ غربت کی وجہ سے اسکول کے لیے وردی نہیں خرید سکتا تھا۔ جس کی وجہ سے ساتھی ہم جماعت اس کا مذاق اڑاتے تھے۔

نبی داد نے بتایا ہمارے ہاں روزگار کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کئی ایسے نوعمر بچوں نے زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کر لی ہے۔

علاج کے لیے بھی دو صوبوں کی سرحد پار کرنی پڑتی ہے

ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اور طالب علم انور بگٹی نے بتایا کہ ڈیرہ بگٹی میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ ٹیچنگ ہسپتال میں ڈاکٹر نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ان کے مطابق علاج کے لیے ہمیں ڈیرہ بگٹی سے سندھ کی بارڈرپار کر کے کشمور کے راستے پنجاب داخل ہونا پڑتا ہے۔ پنجاب کے شہر صادق آباد اور رحیم یار خان سے ہوتے ہوئے ہم علاج کے لیے بہاول پور کا رخ کرتے ہیں۔

وہیں جا کر ہمیں بہترعلاج مہیا ہوتا ہے۔ بہاول پور تک راستہ انہتائی کٹھن اور ناخوشگوار ہے۔ غربت کی وجہ سے بہت سے مریض بہاول پور جا بھی نہیں سکتے۔

شازین نے تیرہ برس کی عمر میں غربت کے باعث خودکشی کر لی

عام آدمی کا کوئی پرسانِ حال نہیں

اختر بگٹی قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے فارغ التحصیل ہیں اور ڈیرہ بگٹی کے مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔

انھوں نے بتایا جب سے نواب اکبر خان بگٹی شہید ہوئے ہیں، تب سے ڈیرہ بگٹی کے عام آدمی کا کوئی پوچھنے والے نہیں۔

ڈیرہ بگٹی کے غریب عوام غربت کی وجہ سے خودکشی تک کر رہے ہیں لیکن حکام اس بارے کوئی قدم نہیں اٹھا رہے۔

ان کے مطابق ٖڈیرہ بگٹی میں روزگار نہ ہونے کے برابر ہے۔ کاشت کاری، جاگیردار اور بااثر شخصیات کرتے ہیں۔ وہ اپنی زمینوں پر اپنے لوگوں کو رکھتے ہیں۔ اگر کسی غریب کو رکھ بھی لیں تو ماہانہ صرف دو ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ اس سے ایک شادی شدہ کنبے والا انسان اپنے اہل و عیال کے لیے کیا کرسکتا ہے؟

اختر بگٹی نے مزید بتایا کہ "یہ نہیں کہ زمیندار اجرت کم دیتے ہیں، یہاں زمینداروں کے لیے پانی کا مسئلہ ہمیشہ درپیش رہتا ہے، کبھی کبھار فصلیں غیرمتوقع بارشوں کی زد میں آ جاتی ہیں جس سے زمیندار کو بڑے مالی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس نہیں

گزشتہ دو سالوں میں ہمیں دو ایسے کیسز ملتے ہیں جہاں غربت نے دو نوجْوانوں کو خودکشی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جن میں سے ایک کا تعلق سوئی اور دوسرا پیرکوہ کا رہائشی تھا۔

رواں سال جنوری میں تحصیل سوئی میں تیرہ سالہ نوجوان راجو بگٹی نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی تھی۔ مقامی ذرائع کے مطابق مذکورہ نوجوان موچی کا کام کرتا تھا۔ ایک دن بازار میں اس کا کام نہیں چلا، گھر آ کر ماں سے پیسوں کی درخواست کی، غریب ماں پڑوسیوں کے پاس مانگنے چلی گئی جب واپس گھر آئی تو راجو بگٹی گلے میں پھندا ڈال کر چھت سے لٹک رہا تھا۔

اختر بگٹی کے مطابق رواں سال تین لوگوں نے خودکشی کی ہے جن میں سے ایک خاتون ہے لیکن ابھی تک خاتون کا نام اور خودکشی کی وجہ نامعلوم ہیں۔ 

ڈیرہ بگٹی کہاں واقع ہے؟

بلوچستان کا علاقہ ڈیرہ بگٹی تحصیل پیلاوغ، سوئی اور ڈیرہ بگٹی پر مشتمل ایک قبائلی ضلع ہے، جس کی سرحدیں مشرق میں راجن پور، سندھ اور پنجاب سے متصل ضلع بارکھان سے ملتی ہیں جب کہ شمال میں لورالائی اور بارکھان واقع ہیں۔  حکومتِ پاکستان کی طرف سے دو ہزار سترہ میں کی گئی مردم شماری کے مطابق ڈیرہ بگٹی کی کُل آبادی 312,603 نفوس پر مشتمل ہے جس میں مردوں کی تعداد ایک لاکھ چھپن اور خواتین کی تعداد کی ایک لاکھ اڑتالیس ہزار بتائی گئی تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق 67 فی صد دیہی جب کہ 32 فی صد لوگ شہری علاقوں میں آباد ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا کہ ہے کہ پیر کوہ کی کل آبادی 43 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

ڈیرہ بگٹی میں خواندگی کی شرح ملک کی انتہائی کم ترین سطح پر شمار ہوتی ہے جہاں مردوں کی خواندگی کی شرح 41.5 فی صد جب کہ خواتین کی شرحِ خواندگی 9.35 فی صد ہے۔

ڈیرہ بگٹی معاشی، تعلیمی اور صحت کی شعبے میں بھی انتہائی پسماندہ ہے۔ یاد رہے سوئی گیس کی پیداوار ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی سے ہوتی ہے لیکن گیس کی فراہمی آج تک سوئی، ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کے بیش تر اضلاع میں نہیں ہے۔

 سن 1952ء میں دریافت ہونے والے سوئی گیس کا آخری معاہدہ سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی دورِ حکومت میں ہوا تھا۔ اُس وقت کے وزیراعلی بلوچستان نواب ثنااللہ زہری کی موجودگی میں ہونے والے معاہدہ کے مطابق سوئی میں تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کے لیے بیس ملین روپے مختص کیے گئے تھے۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی