عبدالغفار بگٹی
صبحِ صادق کے وقت برآمدے میں ٹہلتے نوجوان سے مسجد میں داخل ہونے والے بزرگ نے سوال پوچھ لیا، "بھائی تم کون ہو؟ کیوں پریشان لگ رہے ہو؟"
"جی میں بگٹی ہوں، رات میرے ابو کو کوئی اٹھا کر لے گیا ہے، دعا کریں وہ ان کو واپس کر دیں۔"
"ابو کو اٹھا کے لیا گئے ہیں؟ یہ کیا بات ہوئی۔ پتہ کرو، بڑے بھائی سے کہو پولیس میں رپورٹ درج کروائے۔ مل جائے گا، پریشاں نہ ہو۔"
بزرگ کی کی بات پر سر اثبات میں ہلا کر وہ مسجد میں داخل ہو گیا۔
اس شہری بابا بھلا کیا پتہ اٹھانے والے کتنے زورآور ہیں۔ ان کے یہاں قانون نامی کوئی چیز نہیں ہے۔
وہ چاہے حکومتی ہوں یا سرداری....
سرداری دور میں میرے بھائی کو حکومت نے مار کر لاش پھنک دی تھی، کیوں کہ وہ سردار کے ساتھ تھا اور حکومتی دور میں سرداری لوگ میرے ابو کو گھر سے اٹھا کر لے گئے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں ابو حکومتی ایجنٹ ہے۔
اب وہ دل ہی دل میں دونوں ادوار کا موازنہ کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ سرداری دور میں وڈیرے ہوتے تھے اور ان کی بات مانی جاتی تھی اور حکومتی دور میں بھی وہی وڈیرے ہوتے ہیں اور ان کی بات مانی جاتی ہے۔ سرداری دور میں لاشیں گرتی تھیں اور حکومتی دور میں اجتماعی قبریں بنتی ہیں۔
لوگ اس وقت بھی طاقت ور حلقوں کے شر سےمحفوظ نہ تھے اور آج بھی حکومتی غنڈوں کا ڈر سونے نہیں دیتا۔
تعلیمی شرح اس وقت کم تھی اور آج بھی وہی حالت ہے۔ غربت، بھوک، پریشانی سب کا سب اسی طرح ہے۔ قانون اس وقت بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا اور آج بھی۔
اتنی دیر میں دوست کی کال آ جاتی ہے۔
"اوے بگٹی، ناشتہ تیار ہے، جلد آ کر لے، دفتر کا وقت نکل رہا ہے۔
ناشتے کے بعد وہ بائیکا لے کر نکلا، ایک کلومیٹر طے کرنے کے بعد بائیک والا عادتاً پوچھ بیٹھا، "بھائی آپ کون ہو اور کدھر سے آئے ہو؟"
"جی میں بگٹی بلوچ ہوں اور بلوچستان سے آیا ہوں۔"
جب اس کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو اس کے اندر جیسے بہت کچھ ٹوٹ کر کرچی کرچی بکھر گیا۔ بائیک کی رفتار ذرا کم ہو گئی۔
کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ دھیمی آواز میں پھر ایک دل خراش سوال داغ بیٹھا۔
"بھائی آپ ابھی بھی فوجیوں کو ذبح کرتے ہیں؟"
اب وہ اس کو کیا جواب دیتا!
کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا، "نہیں بھائی، اب وہ ہم کو ذبح کرتے ہیں۔"
یہ صبحِ صادق کا وقت تھا۔ وہ ایک چُستی کے ساتھ کام پہ جا رہا تھا مگر اس ایک سوال نے اس کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی۔
کچھ دیر بعد وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے۔
اتر کر اس نے بائیک والے کو چار سو کے بجائے پانچ سو والا نوٹ تھما دیا۔
کچھ دیر اصرار کرتا رہا مگر وہ نہ مانا تو بائیک والے نے نوٹ رکھ لیا اور کافی دیر تک اس کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔
اس نے پہلی دفعہ کسی "قصائی" قبیلے کے شخص کو ٹائی کوٹ میں دیکھا تھا!!
یہ کوئی کہانی نہیں، حقیقت ہے۔ اس طرح کے واقعات ایک دفعہ نہیں، کئی دفعہ پیش آئے۔
اسی لیے کہتے ہیں، جب آپ کسی کے کان میں زہر بو دیتے ہیں تو اس کے اثرات صدیوں تک رہتے ہیں۔
وہ یہ محاورہ دہرا رہا تھا جو مشرف اپنی تقاریروں میں دہرایا کرتا تھا۔ یہ وہ باتیں تھیں جو اس زمانے میں سکرین پر بیٹھے دو ٹکے کے صحافی حضرات اس قبیلے کے بارے میں کہتے رہتے تھے۔
اب وہ کسے بتائے بتائے کہ اس کو اپنے وطن سے کتنا پیار ہے! کیسے بتائے کہ اس کے پورے قبیلے کو ایک ڈکٹیٹر کے کہنے پر جانوروں کے طرح روندا گیا اور جلاوطن کر دیا گیا۔
اگر آپ کو بیس سال پہلے ایک ظالم بادشاہ کے کہے ہوئے جملے یاد ہیں تو آپ کو یہ بھی یاد ہونا چاہیے کہ ڈیرہ بگٹی شہر کے اندر عورتوں اور بچوں کی لاشوں کی تعداد کتنی تھی۔
اب تو یوں لگتا ہے کہ یہ ایک ملک نہیں ایک مصنوعی جنگل ہے۔ جس میں چوبیس کروڑ مختلف تہذیبوں اور زبانوں کے جانوروں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کو یہ بتایا گیا تم ایک دوسرے کے لیے خطرناک ہو اور اس مصنوعی جنگل کے مالکان بیرونی دنیا میں بیٹھے اسے کنٹرول کر رہے ہیں۔ اس لیے اس کے مستقبل کا کوئی پتہ نہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں