ایڈیٹر
گزشتہ ہفتے سریاب کے علاقہ گاہی خان چوک کے قریب پیش آنے والے اندوہناک واقعہ میں چار بھائیوں کے جاں بحق ہونے کی خبر کو جس طرح ہمارے ہاں معمول کی خبر بنا دیا گیا، وہ ہماری اجتماعی بے حسی اور بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ گاہی خان چوک پہ ایک گھرانے کی جانب سے اپنے گھر کے ساتھ تھڑا بنانے کی معمولی رنجش پہ شروع ہونے والا واقعہ کیسے ایک دلخراش سانحے کی صورت اختیار کر گیا۔ معمول کی تکرار نے قبائلی انا کو ہوا دی، ہتھیاروں کے منہ کھل گئے اور ایک ہی گھرانے کے چار تنومند بھائی لمحہ بھر میں لقمہ اجل بن گئے۔
واقعہ کی تفصیلات کے لیے بی بی سی اردو کی تفصیلی رپورٹ دیکھی جا سکتی ہے۔
ایک بچہ پیدا کرنے اور اسے بیس، پچیس برس تک پالنے کو کیسے کیسے کشٹ اٹھانے ہوتے ہیں، یہ شاید صرف وہی والدین تصور کر سکتے ہیں جنھوں نے اپنے کندھوں پر جوان لاشیں اٹھائی ہوں۔ گزشتہ برس اسی شہر کے ایک اور کونے میں ایسا ہی ایک دلخراش سانحہ پیش آیا تھا جس میں ایک ڈاکٹر کے بڑے بیٹے نے اپنے ہی تین بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اب سال بھر بعد ہم نے دیکھا کہ شہر کے ایک اور کونے میں قبائلی انا چار گھبرو بھائیوں کو کھا گئی۔
افسوس ناک حیرت یہ ہے کہ اس سانحے پہ نہ تو سرکار کے کان پہ جوں رینگی نہ سول سوسائٹی متحرک ہوئی۔ بلوچستان میں سول سوسائٹی کا ابھار ابھی نیا نیا ہے مگر ایسے دلدوز واقعات پہ ان کا کردار نظر نہ آنا خود ان کے کردار پہ سوالیہ نشان پیدا کرتا ہے۔ انتظامیہ نے قاتلوں کو گرفتار کر کے مقدمہ دائر کر دیا اور اپنے فرائض سے بری الذمہ ہو گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سول سوسائٹی اس موقع پر متحرک ہوتی اور شہریوں کو آگاہی فراہم کرتی کہ شہری زندگی، خانہ بدوش قبائلیت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ محض ایک انا، کسی کی زندگی لینے کا جواز نہیں بن سکتی۔
مگر نہ ہماری انٹیلی جنشیا اس پہ بیدار ہوئی، نہ شاعروں ادیبوں کا کوئی احتجاج نظر آیا، نہ طلبا تنظیمیں کہیں دکھائی دیں نہ عوام کو اپنی سیاست کی بھٹی میں خشک لکڑی کی طرح استعمال کرنے والی سیاسی جماعتیں کہیں دکھائی دیں۔ جب کہ فورسز کی گولی کا نشانہ بننے والے ایک نوجوان کی موت پہ بھی ہمارا سماج متحرک نظر آتا ہے، اور ہونا بھی چاہیے۔ بے گناہ موت خواہ کسی وردی والے کے ہاتھوں ہو یا کسی قبائلی انا کے ہاتھوں، یکساں طور پر قابلِ مذمت ہونی چاہیے۔
مگر ہم نے بہ طور سماج اس سانحے پر جس اجتماعی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ہماری پسماندگیوں اور بربادیوں کی نشانیوں اور اسباب میں سے ایک ہے۔ ہم بیرونی دشمن کو تو آسانی سے شناخت کر کے اس کے خلاف لڑ لیتے ہیں، اندرونی دشمن کو شناخت کرنے کی صلاحیت سے شاید اب تک عاری ہیں۔
ایسے واقعات ہمارے سماج کی پیشانی کا داغ ہی نہیں، یہ ہمارے سماج کا اجتماعی اشک بھی ہیں۔ انھیں پونچھے بغیر ہماری آنکھیں روشن ہو سکتی ہیں نہ روشن مستقبل کا خواب دیکھنے کی اہل ہو سکتی ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں