{ads}

سلیمان ہاشم

گوادرکےناخدا حمزہ اور ان  کی بیوی ماہ گنج ابھی ستر کے پیٹے کو پہنچے ہیں لیکن غربت اور ناسازگار حالات نے ان کے چہروں کی جھریاں ایسی ابھاریں کہ وہ 90 سال کے بوڑھے لگنے لگے ہیں۔ ان کی تین بیٹیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور آخری لڑکے کے گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے کوشش کی کہ اسے ماہی گیری کی بجائے سرکاری آفس کی کوئی اچھی نوکری ملے۔ انھوں نے جی ڈی اے میں نوکری کے لیے ویجلس کی پوسٹ پہ کوشش کہ لیکن رزلٹ نکلا تو پتہ چلا کہ  کام یاب امیدواروں میں صرف جی ڈی اے افسران کے رشتے دار ہی میرٹ پر آئے ہیں۔ لڑکے نے محکمہ فشریز میں سینئر کلرک کی پوسٹ پر اپلائی کیا، ٹیسٹ اور انٹرویو ہوئے لیکن ایک سال سے کسی بھی امیدوار کو سلیکٹ نہیں کیا جا سکا۔ 

 وہ مایوس ہوا اور اب وہ اپنے والد کے ساتھ سمندر کی بپھرتی لہروں کا مقابلہ کرنے اور مچھلیوں کے شکار پر جاتا ہے۔

ایرانی پٹرول پہلے 80 روپے لیٹر تھا، اب 270 روپے تک پہنچا ہے۔ اکثر ٹالروں کے بے دریغ ساحلوں پر جھاڑو پھیرنے سے وہ خالی ہاتھ آتے ہیں۔ اس کی ماں کوعلاج کی سہولت نہ ملنے سے مثانے اور گردوں کے امراض نے بہت کم زور کر دیا ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی سے اس خاندان کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ آٹا، چاول، دال، آلو، پیازدیگر سبزیاں قوتِ خرید سے باہر ہو گئی ہیں۔ دودھ، چائے پتی، چینی، گھی یا خوردنی تیل، مختلف مصالحہ جات یہاں تک کہ مرغی اور مچھلی بھی مہنگی ہو چکی ہیں۔

ناخدا عمر کے مطابق بلوچستان اور خصوصاً گوادر پاکستان کا مہنگا ترین شہر ثابت ہوا ہے۔ گوادر میں ایک چھوٹے خاندان کے ماہانہ اخراجات 50 ہزارسے کم نہیں۔

یہ تو اچھا ہے کہ ناخدا حمزہ کے والد نے اپنے مرنے سے پہلے تین کمرے کا مکان چھوڑا ہے۔ 

 گوادر میں اوسط درجے کے مکانوں کا ماہانہ کرایہ 10 ہزار سے ایک لاکھ تک پہنچ چکا ہے۔ اب تو حمزہ کو گزشتہ کئی مہینوں سے جب اس کے جانشو (خلاصی) جامک نے اس کی کشتی کو  چھوڑا ہے، ناخدا حمزہ روز کریمک ہوٹل پرچائے پینے جاتا ہے۔ کریمک ہوٹل کے تھڑے پر بیٹھا ہر کسی سے کہتا ہے کہ میری کشتی پر کام کا لڑکا چاہیے۔

ماہی گیر اکبر کہتا ہے کہ برادر ہم کیا کریں، اب تو گوادر، دشت، کلانچ اور نگور کے تمام لڑکے کنٹانی ہور اور بارڈر میں روز مزدوری میں 4/5 ہزار روپے کما رہے ہیں۔ وہ بھلا آپ کی کشتی پہ کیوں ملازمت کریں گے۔

حمزہ کے بچوں کی ماں ماہ گنج گزشتہ کئی سالوں سے گوادر کے سول ہسپتال میں زیرعلاج رہی لیکن دن بدن ان کا وزن کم اور وہ کم زور ہوتی جا رہی ہیں۔ کراچی جانے کے لیے بہت روپے چاہئیں اور وہاں رہائش ناخدا حمزہ کی قوتِ خرید سے باہر ہے۔

سیٹھ بشیر نے ایک دن ناخدا کو خوش خبری دی اور کہا کہ جی ڈی اے ہسپتال گْوادر کی انڈس ہسپتال کی حوالگی کے لیے 24 جون  2022 کو ایم او یو طے پایا گیا ہے جس کے بعد انڈس ہسپتال کی انتظامیہ نے یکم نومبر 2022 کو جی ڈی اے ہسپتال گوادر کا انتظام بھی سنبھالا ہے۔ سنا ہے اس ہسپتال میں ایم آر آئی اور تمام ٹیسٹ، الٹرا ساؤنڈ فری ہے۔

علاوہ ازیں دیگر کئی سہولیات موجود ہیں۔ جو کسی بھی ہسپتال میں بنیادی طبی سہولیات میں شمار ہوتی ہیں۔ ہسپتال میں بڑی بیماریوں کی تشخیص  ہو رہی ہے۔   جی ڈی اے ہسپتال گْوادر میں نئی انتظامیہ کے آنے کے بعد طبی سہولیات کی فراہمی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور ایم پی اے نے وہاں گوادر کے عوام کو خوش خبری سنائی ہے، ایمبولینس سے مریضوں کو لانے لے جانے کی بھی سہولت موجود ہے۔

حمزہ کو ایک آس، ایک امید، ایک ان جانی خوشی ہوئی کہ چلو نئے انڈس ہسپتال میں ماہ گنج کا مفت علاج ہو گا، لیکن وہاں جانے کے باوجود اب تک گوادر کے کئی شہری ماہ گنج کی طرح علاج کی سہولت سے محروم ہیں۔ مریض، مرض کی تشخیص اورعلاج کی خاطر خواہ سہولت میسر نہ ہونے پر دوبارہ کراچی یا دیگر شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس دکھ، اس درد میں ماں بیٹے اور باپ زندگی موت کے دوراہے پر کھڑے ہیں اور سیٹھ بشیر کے مقروض ہیں۔  کنٹانی ہور میں ایرانی ڈیزل لانے اور لے جانے کے لیے بھی سیٹھ بشیر کی اجازت کی اجازت چاہیے۔ 

ناخدا اللہ داد صحیح کہتا تھا کہ اس ملک میں غریب کا علاج صرف موت ہے۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی