{ads}

ایڈیٹر

پاکستان بھر میں 28 مئی کو یومِ تکبیر منایا جاتا ہے۔ یہ دن پاکستان میں 1998 کو ہونے والے ایٹمی دھماکوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جس کے بعد پاکستان دنیا کی سات ایٹمی ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ یہ دھماکے بلوچستان کے علاقہ چاغی کے پہاڑوں میں کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس وقت بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی حکومت میں تھی اور سردار اختر مینگل صوبے کے وزیراعلیٰ تھے۔

قطع نظر اس بحث کے کہ ان دھماکوں کے نتیجے میں پاکستان کو کیا فائدہ ہوا اور کیا نقصان ہوا، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جس سرزمین پر یہ دھماکے کیے گئے، وہ آج بھی قابلِ رحم حالت میں ہے۔

پاکستانی عوام کی اکثریت شاید ہی اس بات سے آگاہ ہو کہ چاغی میں آج بھی بجلی، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضروریات دستیاب نہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں وہاں پیدا ہونے والی تابکاری کے اثرات سے متعلق نہ کوئی سروے کیا گیا، نہ عوام کو کوئی سہولیات فراہم کی گئیں۔

اس موقع پر دعوے تو بہت کیے گئے لیکن عمل درآمد کی کوئی صورت نہ ہو سکی۔

آج ان دھماکوں کے 25 برس بعد اتفاق سے مرکز میں ایک بار پھر مسلم لیگ ن کی حکومت ہے، نواز شریف کے بھائی شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں اور بلوچستان نیشنل پارٹی ان کی اتحادی ہیں، جن کے پاس وفاق میں وزارت بھی ہے۔ کیسی بدقسمتی ہے کہ بلوچستان میں آج بھی یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ یہ دھماکے درست تھے یا غلط، بی این پی کا اس وقت کا کردار صحیح تھا یا غلط، جو کہ آج ایک لایعنی بحث ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ آج کے دن بجائے ماضی کی بحث میں پڑنے کے سیاسی کارکن اپنی جماعتوں سے یہ مطالبہ کرتے کہ وہ چاغی میں بنیادی زندگی کی سہولیات کو ممکن بنائیں، یونیورسٹی آف رخشان کی بنیاد رکھیں اور وفاقی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت جو کہ بی این پی کے پاس ہے، وہ چاغی میں کسی سائنسی ادارے کی بنیاد رکھے اور وہاں کے طلبا کے لیے ملکی و عالمی سطح پہ اسکالرشپس کا مستقل انتظام کرے۔

ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاسی ورکر اپنے سیاسی مباحث کے موضوعات ہی درست کر لیں تو ہماری سیاسی سمت درست ہونے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی