{ads}




فضیلہ صدیق

بلوچستان کے کئی شہر اور علاقے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے ہیں جو اب بھی پرانے دور کی سوچ اور فرسودہ روایات پر عمل کرتے ہیں۔ ان مشکل حالات میں کئی بلوچ لڑکیاں بہ مشکل تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ان کو تعلیمی اداروں تک پہنچنے میں کتنی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا؟ ان کو نہیں تو ان کے والدین کو ضرور کرنا پڑا ہے، لوگوں کے طعنے سننے پڑتے ہیں یا لڑکیوں کو خود کتنی باتیں سننا پڑتی ہیں، یہ صرف وہی جانتی ہیں۔

اس سب کے باوجود وہ کچھ امیدیں اور کچھ خواہشیں لے کر یہ ان سب مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ کل جب وہ کسی عہدے یا مقام پر ہوں گی تو وہ لوگ جو ان پر باتیں بنایا کرتے تھے، ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ وہ سب کو ثابت کرنے کے لیے (کہ وہ لڑکیاں ہیں تو کیا ہوا وہ بھی اس بڑھتی دنیا کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں) بہت سی مشکلات کا سامنا کر کے، کئی باتوں کو نظرانداز کر کے محنت اور لگن سے اپنی پڑھائی جاری رکھتی ہیں۔

اس سب میں ایک استاد کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان کا ساتھ دے ان کی مدد کرے اور اگر نہ بھی کرے تو کم از کم ان کی راہ کا روڑا نہ بنے، اور اگر وہ استاد کوئی میل کے بجائے فیمیل ہو تو اس سے بڑھ کر کون سمجھ سکتا ہے ایک لڑکی کی مشکلات کو۔ لیکن اگر وہی استانی صاحبہ کسی فیمیل اسٹوڈنٹ کے ساتھ محض اسی لیے دشمنی نبھائے کہ وہ اس لڑکی پر حکومت کرنا چاہتی تھی، اسے اپنے نیچے دبا کر رکھنا چاہتی تھی جو وہ نہ کر پائی، تو اس صورت میں وہ استانی صاحبہ دشمنی کا ایک مضبوط دھاگا پرو لیتی ہے جو ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

 ایک استاد کو کبھی ماں باپ کا درجہ دیا جاتا تھا، اس لیے مذکورہ صوت حال کے پیشِ نظر میں اب یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا ماں باپ ایسے ہوتے ہیں؟ کیا ماں باپ بچوں کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں؟ کیا ماں باپ بچوں پر حکومت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں؟ کیا ماں باپ بچوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں؟

کہا جاتا ہے کہ ماں باپ کے بعد استاد ہی ہے جو ایک بچے کا مستقبل سنوار سکتا ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ جو استاد بچوں کا مستقبل سنوارتا ہے وہی استاد ہی بچوں کو باغی بھی بناتا ہے۔ استاد کے لیے میرے دل میں بہت احترام ہے لیکن صرف ایک استاد نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا استاد ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ 

کاش اس معاشرے میں کھل کر بولنے کی اجازت ہوتی تو میں بس اس ایک استاد کو بٹھا کر پوچھتی کہ آپ کے مطابق استاد کسے کہتے ہیں اور استاد کیا ہوتا ہے؟

میرے دل میں ہزاروں سوالوں نے جنم لیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میری روح کو بھی زخمی کیا ہے۔ 

میں بلوچ قوم کی ایک بیٹی ہوں اور میں مزاحمت کرنا جانتی ہوں۔ لیکن میں ایک انسان بھی ہوں اور میری سوچ کا سمندر مجھے بہت گہرائی تک لے جا کر چھوڑ دیتا ہے اور پھر وہاں سے نکلنا میرے مشکل ہو جاتا ہے۔

بس اتنی سی گزارش ہے کہ خدارا ہماری راہ کو بڑے بڑے پتھروں سے بند نہ کریں، وہ پتھر تو ہم ہٹا لیں گی لیکن ہماری روح اس سے زخمی ہو گی۔ بس اپنے ایک پسندیدہ شعر کے ساتھ بات ختم کرتی ہوں کہ

گرجتے ہیں تو پہاڑوں کے جگر چیر کے رکھ دیں

اڑتے ہیں تو پر کاٹ کے تقدیر کے رکھ دیں 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی