اس بار پہلی دفعہ عید میلہ جو کہ گوادر کی تاریخی پس منظر رکھتا ہے اس پر کچھ مزہبی عناصر جوکہ گوادر کی تاریخ سے نا بلد تھے مخالفت کی لیکن عید میلہ آرگنائزر نے تمام مخالفتوں اور تمام مشکلات کے باوجود اس تاریخی لوک ورثہ کو ایک خوبصورت رنگ میں پیش کرکے گوادر اور مکران کے نوجوانوں کو ایک بہترین انٹرٹینمنٹ مہیا کی۔
گوادر کوہِ باتیل پر 18ویں صدی سے گوادرعید میلہ ہر سال دونوں عیدین میں منایا جاتا تھا۔ سلطنت عمان کے دور میں گوادر کے لوگ عید کے دوسرے دن اپنے بچے اور بچیوں کے ساتھ کوہِ باتیل کے مختلف راستوں سے اوپر پیدل، گدھوں، اونٹوں اور گھوڑوں پر چڑھ کر جاتے تھے۔
ہمارے بزرگوں کے مطابق کوہِ باتیل پر گھوڑوں اور اونٹوں کی ریس ہوا کرتی تھی۔ مالد اور دف اور لیوا بجانے والے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ گوادر اور اس کے مضافاتی علاقوں کے عام ماہی گیر کسان اور تاجر الصبح کوہِ باتیل پر پہنچ جاتے تھے اور شام ڈھلے واپس گھروں کی جانب لوٹتے تھے۔ کوہِ باتیل پرعارضی ہوٹل اور دکان بھی سجائے جاتے تھے۔ لوگ دوپہر کو وہی کھانا کھاتے تھے۔
وقت اور حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب گوادر کے علاوہ ضلع کیچ پنجگور، لسبیلہ اور کراچی کے سیاحتی شوقین نوجوان بھی کوہِ باتیل کے خوب صورت مناظر سے اور اس میلہ سے مستفید و لطف اندوز ہو رہے ہیں کیوں کہ اب کوہِ باتیل تک پکی اور کچی سڑک بنی ہے۔ پہلے اس پر چڑھنے میں کئی گھنٹے لگتے تھے، اب منٹوں میں لوگ پہنچ جاتے ہیں۔ کوہِ باتیل نہ صرف ایک تفریحی مقام ہے بلکہ یہ جگہ ایک دوسرے سے ملنے ملانے، میل ملاپ، عید مبارک باد پیش کرنے اور ایک دوسرے سے ملاقات کا اہم اور بہترین ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ کئی نوجوان اپنے دوستوں کے ساتھ کوہِ باتیل کے کھیتوں اور کئی شیڈوں میں یا کیکر کے سایہ دار درختوں کے نیچے بیٹھکر وہی کھانا تیار کر کے دوستوں کے ساتھ پکنک کا مزہ لیتے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں