جمیل بزدار
پاکستان کے انتظامی سٹرکچر میں بیوروکریسی کا کردار بہت اہم ہے یا یوں سمجھیں ملک کا نظام چلانے والے یہی لوگ ہیں۔
یہ بیوروکریسی اتنی طاقت ور ہے کہ طاقت ور سے طاقت ور سیاست دان بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ اپنی من مانی پر اتر آئے تو عوام کا جینا دوبھر کر دیتی ہے۔ کتاب "پولیٹیکل ایتھنسٹی ان پاکستان" میں لکھا ہے کہ "تقسیم بنگال سے پہلے پنجابیوں کے پاس صرف سیاسی و انتظامی برتری تھی جب کہ عددی برتری بنگالیوں کو حاصل تھی لیکن تقسیم بنگال کے بعد دونوں یعنی سیاسی و انتظامی اور عددی برتری پنجابی کے پاس آ گئی" اسی کتاب میں آگے جا کر ذکر ہے کہ یہی برتری دوسری قوموں یعنی سندھی، بلوچ اور مہاجر کے درمیان کنفلیٹ پیدا کرتی ہے۔ پنجابی بیوروکریسی کی افسر شاہی، من مانی اور قوم پرستی وہ عناصر ہیں جس کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کی طرف توجہ کم دی جاتی ہے۔
آپ جنوبی پنجاب کو ہی لیں، ڈیرہ غازی خان کی آبادی کافی زیادہ ہے لیکن ترقی کے لحاظ سے پستی کا شکار ہے اس کے دیہات میں آج بھی بنیادی تعلیمی و صحت کے سہولیات میسر نہیں۔ عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود یہ علاقے اسی طرح پسماندہ ہیں۔
یہاں کے عوام کی محرومی کا مذاق بنانے کے لیے اور مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے سرائیکی تحریک اور سرائیکستان کا شوشہ چھوڑا گیا جو کہ غیر فطری و غیر حقیقی بحث ہے۔ اس تحریک کو سیاسی عزائم اور مقامی لوگوں کی اٹینشن ڈائیورٹ کرنے کے لیے امپوز کیا گیا حالاں کہ ہم سب جانتے ہیں ڈیرہ غازی خان اور یہاں کے لوگ تاریخی اعتبار سے بلوچ اکثریت اور ان کا کلچر و جیوگرافیکل تعلق بلوچستان سے بنتا ہے۔ پنجاب سے غیرفطری طور پر ملانے سے نہ صرف محرومی کا احساس بڑھ گیا بلکہ بہت سارے لوگ قومی شناخت کے بحران سے بھی دو چار ہیں۔ محرومی کی حالت یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو ایک یونیورسٹی تک میسر نہ رہی۔ غازی یونیورسٹی کا قیام ابھی حال ہی میں ہوا ہے۔
پنجابی بیوروکریسی اتنی طاقت ور اور منظم ہے کہ غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان اور ملحقہ علاقوں میں واحد یونیورسٹی ہونے کے باوجود یہاں وائس چانسلر سے لے کر ایڈمن کے زیادہ تر اسٹاف اپر پنجاب سے ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب جنوبی پنجاب اور خصوصا ڈیرہ غازی خان کا ہونے کے باوجود یہاں کے لوکل کمپیٹینٹ وائس چانسلر نہ لگا سکے نتیجتا آج انتظامیہ کی غنڈہ گردی کا یہ حال ہے کہ سرے عام طلبا کو سٹڈی سرکل میں دھمکایا جاتا ہے، ان کی پروفائلنگ کی جاتی ہے اور جب وہ اپنے ساتھ ہونے والے اس رویے پر آواز بلند کرتے ہیں تو ان کو ایکسپل کیا جاتا ہے۔
بی بی سی سمیت نیشنل و انٹرنیشنل نیوز میں خبر چلنے کے باوجود وائس چانسلر صاحب سکون سے فیصل آباد میں اپنے گھر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ تمام طلبا بلوچ ہیں اور ڈیرہ غازی خان کے مقامی با شندے ہیں۔ بات یہاں نہیں رکتی ایک بلوچ پروفیسر صاحب جب ان طلبا کی آواز بن کر سوشل میڈیا پر ہم دردی کرتے ہیں تو یہ لوگ اپنا حاکمانہ رویہ اپناتے ہوئے اسے بھی ٹرمینیٹ کر دیتے ہیں۔ یہ اس بیوروکریٹک حاکمیت کی عکاسی کرتا ہے جو اپر پنجاب ایک عرصے سے کرتا آ رہا۔
غازی یونیورسٹی کی انتظامیہ میں کلرک سے لے کر رجسٹرار تک مقامی لوگوں کا حق تھا یہ حق بھی ان سے چھینا گیا اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اسٹیشنری دکان سے لے کر ایڈمن آفس تک تمام لوگ باہر کے یعنی اپر پنجاب کے ہیں اور انتظامیہ اپنے من پسند لوگوں کو بھرتی کر رہی ہے اور ایک مونوپلی بنا کر مقامی لوگوں کو طرح طرح سے ڈرا دھمکا کر چپ کروایا جاتا ہے۔
عثمان بزدار نے بہت سے اچھے کام کیے تاہم چند ناانصافیاں جو انھوں نے اپنے اہلِ علاقہ سے کیے وہ ناقابلِ تلافی ہیں گو کہ ان کے فیصلے اور اقدام بھی ایک مخصوص جگہ اور لوگوں سے سکرپٹڈ ہو کر آتے تھے۔
١- بی زیڈ یو یونیورسٹی میں کوہ سلیمان کے سیٹوں کا خاتمہ اور ان کو بحال نہ کرنا
٢- انتظامی پوسٹوں پر اپنے علاقے کے قابل نوجوانوں کو مواقع فراہم نہ کرنا اور بیوروکریسی میں اپنے لوگ داخل نہ کروانا
٣- پنجاب کے مختلف یونیورسٹیوں میں ٹرائبل ایریا کے نوجوانوں کے لیے کوٹہ مختص نہ کروانا
شاید سردار صاحب کے آگے پیچھے دائیں بائیں وہ لوگ تھے جو قومی کا سوچ نہیں رکھتے تھے بلکہ ذاتی مفادات تک محدود تھے اور ان ذاتی مفادات سڑکوں کے ٹھیکوں اور واٹر سپلائی سے ہی پورے ہونے تھے۔ یاد رہے قومیں ہمیشہ ہیومن ڈولپمنٹ سے ترقی کرتی ہیں اگر عثمان بزدار ہر یونیورسٹی میں ٹرائبل ایریا کے 10 طلبا کا بھی کوٹہ مختص کرتے تو شاید 5 یا 10 سال بعد ٹرائیبل ایریا کے بہت سے نوجوان بیوروکریسی سمیت اچھی پوسٹوں پر تعینات ہوتے اور مستقبل میں غازی یونیورسٹی جیسے حاکمانہ رویہ کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
غازی یونیورسٹی کی انتظامیہ کے اس ظالمانہ رویے اور اقربا پروری کے خلاف مقامی آبادی کو اٹھنا پڑے گا۔ ان کو اپنے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے خلاف یک جا ہو کر انتظامیہ کو یہ باور کرانا ہو گا کہ غازی یونیورسٹی پر پہلا حق یہاں کے طلبا، یہاں کے پروفیسرز اور یہاں کے ورکرز کا ہے۔ اس طرح کے حاکمانہ رویے کے خلاف شدید مزاحمت کی ضرورت ہے۔ اس لیے ڈیرہ غازی خان کے غیور عوام، سوشل ایکٹوسٹ، سیاسی و سماجی تنظیموں اور طلبا تنظیموں کو بلوچ طلبا کے ساتھ ہونے ہونے والی زیادتی اور انتظامیہ کی غنڈہ گردی کے خلاف اظہار یک جہتی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اہلِ علاقہ اسی طرح خاموش رہے تو یہ ادارے ہمارے ہونے کے باوجود ہمارے نہ رہیں گے۔
ایک تبصرہ شائع کریں