{ads}



خلیل شاکر
 

اکتوبر 2019 تا 2022 مارچ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے کارکن دو بار اسلام آباد احتجاج کے لیے آئے۔ ملک کے مختلف حصوں سے قافلوں کے صورت میں پہنچے۔ پہلی بار 13 دن رکنا پڑا، دوسری بار پانچ دن اسلام آباد میں ٹھہرے رہے۔ راستے میں کسی سرکاری عمارت پر تیل چھڑکایا نہ کسی پرائیویٹ پراپرٹی پر پتھر برسائے- درخت کے کسی پتے تک کو نہیں توڑا- اسلام آباد پہنچ کر یہاں جب رکے تو روزانہ صبح ناشتہ سے پہلے صفائی ستھرائی کا سلسلہ شروع کرتے۔ جس جگہ وہ ٹھہرے تھے، اس کی صفائی تو ہو جاتی تھی۔ آس پاس سڑکوں کی صفائی کا بھی خیال کرتے تھے۔ دھرنے کی حفاظت پہ مامور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار کو تکلیف پہنچانا، مار پیٹ اور ان کو تشدد کا نشانہ بنانا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اکثر و بیشتر سیکورٹی اہلکار جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کے ساتھ کھانا یا ناشتہ مل کر کرتے تھے۔ تصاویر اور ویڈیو فوٹیجز منظرعام پر موجود ہیں، یہ کوئی فرضی کہانی نہیں۔

کراچی اور کوئٹہ سے قافلوں نے نکل کر لاہور سے پھر اکٹھے چلنے پر اتفاق ہوا تھا- دونوں قافلے لاہور پہنچے۔ ایک دن اور ایک رات لاہور میں قیام کیا۔کوئی میٹرو بس رکی اور نہ اورنج ٹرین، کہیں سڑک بند ہوئی نہ کسی کے کاروبار کو نقصان پہنچایا۔ کسی گاڑی کو جلایا اور نہ کسی اے ٹی ایم مشین کو توشہ خانے کی گاڑی سمجھ کر ساتھ لے گئے۔ لاہور سے لوگوں کا جمِ غفیر روانہ ہوا۔ اسلام آباد تک پہنچے تو لوگوں کے دلوں میں چہار دانگ عالم مذہبی جماعت کے کارکنوں کے بارے جو تصور قائم کروایا گیا تھا، وہ یکسر غلط ثابت کرکے دکھایا۔

 اسلام آباد پہنچنے کے بعد 2019 میں 13 دن پشاور موڑ پر رہے، کسی ایک انسان کو بھی اذیت نہیں دی۔ خواتین میڈیا رپورٹرز کو دوپٹے پہنا کر یہ بات بھی باور کرا دی کہ کسی خاتون کی عزت اور احترام اولین ترجیحات میں سے ہونی چاہیے۔ کارکن ایک جگہ محدود رہے، میٹرو چلتی رہی، نظام چلتا رہا جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے ان دو مارچوں نے جس طرح مذہبی طبقے کی تصویر پیش کی۔ لوگوں کے آنکھیں کھلی کے کھلی رہ گئی وہ انھیں قیادت کی تابع دار اور حقیقی جمہوری ورکر گرداننے لگے۔ الف سے لے کر ی تک کارکنوں کی اس مہذب، پُرامن اور باشعور مارچ ہونے کا سہارا جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی لیڈر شپ کے سر جاتا ہے۔ قیادت اپنے کارکن کو سلیقہ مند بنانا چاہے تو وہ سلیقہ مند بن کر رہے گا۔ اگر قیادت اپنے کارکن کو تمیز اور اخلاق سے گری حرکات وسکنات کا درس دے گی تو کارکن وہی سبق یاد رکھے گا۔

گزشتہ دنوں جس جماعت کا دھرنا اسلام آباد آیا تھا، اسی جماعت کا ایک دھرنا 2014 میں بھی آیا تھا۔ جس کے بارے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس میں ایلیٹ کلاس، مہذب اور تعلیم یافتہ ورکرز ہیں مگر جس طرح سے یہ نو سال پہلے نیچ اور گری ہوئی مخلوق سے بھری پڑی تھی ویسے آج بھی تھی۔ 2014 میں بھی خونی فسادات، قومی اور عوامی املاک کو نقصان پہنچا کر لوٹے اور کل بھی پشاور سے نکل کر اسلام آباد تک پہنچتے پہنچتے لوگوں کو اذیتیوں سے بھرپور سامان فراہم کیا۔ پشاور میں ایک غریب آدمی کا رکشا نذرِ آتش کیا، لاہور میں پولیس اہلکار کو قتل کیا۔ عوامی املاک کو نقصان پہنچایا۔ اسلام آباد کے خوب صورت علاقے بلیو ایریا میں گھاس اور درختوں کو آگ لگائی۔ میٹرو اسٹیشن جلایا۔ ایک نجی بینک کے اے ٹی ایم کو توڑا۔ سڑک کے بیچ لگے جنگلا توڑ ڈالے۔

صبح جب قیادت پہنچی تقریروں میں مذہبی تڑکا لگا کر دھرنا برخاست کیا تو کچرے وغیرہ کا ایک ڈھیر چھوڑ کر رفوچکر ہو گئے۔

بغیر کسی لگی لپٹی کے اہلِ قلم انصاف کریں گے تو انھیں ایک مذہبی جماعت کے کارکن اور ایک سیاسی جماعت کے کارکن کی تربیت کے فرق کا بہ خوبی اندازہ ہو جائے گا،کون اس دیس کے مفاد کا محافظ ہے؟ کون اس مملکت کی پراپرٹی کو اپنی پراپرٹی سمجھتا ہے؟

کون سلجھا ہوا اور سنجیدہ کارکن ہے؟ دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان کمپیئرنگ کریں پھر فیصلہ دیں۔۔۔۔ بھلا اب بھی سوچنے کا کوئی تُک؟!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی