{ads}



بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم
ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان

(تیسری قسط)

مولوی عبدالحق کی لائبریری دیکھنے کے بعد میں، قدیر لقمان اور پزیر جی ایم وہاں سے روانہ ہوئے۔ اُس وقت دوپہر کے ایک بجنے والے تھے اور سورج سر پر کھڑا تھا۔ ہم نے قدیر لقمان کے گھر کا رستہ لیا اور جب ہم تربت شہر سے گزر رہے تھے تو میں دیکھ رہا تھا کہ بلوچستان کے دیگر شہروں کے مقابلے تربت بہت آگے ہے۔ سڑکوں اور شاہراؤں سے لے کر مونومنٹ تک سب انتہائی خوب صورتی سے تعمیر کیے گئے تھے جس کا کریڈٹ سابقہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کو جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن 2013 میں اُس نے تربت کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ تربت کی تنگ سڑکوں کی جگہ بڑی اور کشادہ شاہراہیں اور خوب صورت مونومنٹ بنائے گئے ہیں جو شہر کی خوب صورتی کو دوبالا کرتے ہیں۔ میری طرح اگر کوئی بھی تربت دیکھنے آئے تو اِسے بھی یہاں زمین پر کام دکھائی دیں گے۔ تربت میڈیکل کالج اور یونیورسٹی بھی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں تعمیر کیے گئے۔ 

بہت سے لوگ گلہ کرتے ہیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے  صرف اپنے علاقے یعنی تربت کو ترجیح دی ہے بلوچستان کے دیگر علاقوں کی تعمیر و ترقی پر اُس نے توجہ نہیں دی۔ میرے خیال میں اگر بلوچستان کے سابقہ وزرائے اعلٰی جو مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اگر سب  ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی طرح اپنے اپنے علاقے کو اپنی ترجیحات کا حصہ بناتے تو آدھا بلوچستان ترقی کرتا۔ حیف اِس ملک میں ہر کسی کے پاس کام کرنے کا جذبہ موجود نہیں۔  

تربت جو کہ تاریخ میں کیچ کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ شہر بلوچستان کے قدیم شہروں میں سے ایک ہے۔ اِسی طرح بلوچستان کے مقابلے میں مکران ایک قدیم خطہ ہے۔ یہاں پر قدیم زمانے کی باقیات اور مقبرے پائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح مکران کی قدیم نشانی کیچ کہلاتا ہے۔ کیچ بزاروں سالوں کی نشیب و فراز سے گزر کر آ رہا ہے۔ دو پہاڑوں کے درمیان آباد یہ شہر قدیم زمانہ سے کیچ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بہت ہی خوب صورت جغرافیہ اور زرخیز زمین کا حامل خطہ ہے لیکن اب تک اِس کی مکمل تاریخ کو حتمی طورپر کھوجنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ نہیں معلوم کیچ نے اپنے اوپر صدیوں پہلے کس طرح کے حالات و واقعات رونما ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ دو پہاڑوں کے درمیان واقع یہ شہر کیچ کے نام سے منسوب ہے۔ کیچ کا نام اور اِس کے معنی موجود زمانے میں استعمال ہونے والا لفظ نہیں ہے کہ ہم حتمی طورپر کہیں کہ اس کے معنی کیا ہیں۔ لیکن بہت سے تاریخ دانوں نے کیچ کا اپنے حساب سے معنی دریافت کیے ہیں۔ میں ان کو پڑھنے والوں کے لیے سامنے لانا چاہتا ہوں۔  

لالا ہتو رام تاریخ بلوچستان نامی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ "کیچ کا پرانا نام گنج آباد تھا۔ یہ شہر اپنے زمانہ میں ایک سرسبز و شاداب شہر ہوا کرتا تھا۔ یہ علاقہ کاریز اور ندیوں پر مشتمل علاقہ تھا۔ اُس زمانے میں گنج آباد کا حکم ران ملک شہر خان نامی شخص ہوا کرتا تھا۔ اُسی زمانے میں ایران کی بادشاہی کیخسرو کے پاس تھی۔ ملک شہر یار خان نے کبھی بھی ایرانی حاکم کی چیر دستی کو قبول نہیں کیا۔ پھر ایران کے بادشاہ کیخسرو اپنے ایک جرنیل کی سربراہی میں ایک بہت بڑا لشکر بنا کر گنج آباد بھیج دیتے ہیں۔ لشکر کشی کے بعد گنج آباد کا تخت تاراج کیا جاتا یے۔ یہ لشکر گنج آباد کی تمام کی تمام سرسبز کھیتی کو نذرِ آتس کرتے ہیں۔ وہ پھر بڑی شان سے کہتے ہیں کہ "امروز گنج آباد را ھیچ کردم" یعنی ہم نے گنج آباد کو خاک میں ملا دیا۔ اس بنا پر گنج آباد کا نام بہت عرصے کے لیے ھیچ کے نام سے پکارا گیا تھا"۔ 

واجہ گلزار گچکی اپنی کتاب "اشرپ دُرّا ءِ زند ءُ ازم" میں کمالان گچکی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہی لبز "ھیچ" دھیرے دھیرے بگڑ کر کیچ بن گیا ہے"۔ آگے اِسی کتاب میں واجہ گلزار گچکی لکھتے ہیں کہ مرحوم مُلا محمد عبداللہ کیچ کے قاضی اور اعلٰی پائیہ کے عالم ہوکر گزرے ہیں۔ اُس زمانہ میں کیچ کے نائب، مرزا نوربخش بہاولپوری ہوا کرتے تھے۔ ایک مجلس میں بہاولپوری مُلا سے مکران اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں جس پر ملا جواب دیتے ہیں کہ  "بزرگوں کی وہ باتیں جو ہم تک نسل در نسل پہنچی ہیں جیسا کہ لوک شاعری اور داستانوں میں بھی واضح ہے کیچ کا نام پہلے گنج آباد تھا"۔ 

قدیم زمانہ (یعنی قبل از اسلام) سے پہلے کیچ کی رعایا کو زیرِنَگین بنانے اور اُن سے لڑائی لڑنے کے لیے ایک جَرنیل شاہ ایران کی طرف سے کیچ بھیجا گیا تھا۔ ایران کے بادشاہ نے گنج آباد کی رعایا سے ٹیکس اور مالیات کا بھی مطالبہ کیا۔ لیکن گنج آباد کی رعایا نے ٹیکس اور مالیات دینے سے صاف صاف انکار کیا تھا اور اِس انکار کی بنا پر اُن پر لشکر کشی کی گئی۔ مکران کے لوگ اپنی طبیعت کی وجہ سے بنیادی طورپر شاہی فرمان کو خاطر میں نہیں لاتے تھے جس کے بعد بادشاہ کے حکم پر گنج آباد (کیچ) کو تہہ و بالا کر دیا گیا۔ لشکر نے قتلِ عام کیا۔ مال مویشی چھین لیے۔ باغ اور باغیچہ سمیت گھروں کو نذرِ آتش کیا۔ جب کبھی بھی جرنیل یہ واقعہ بیان کرتا تو فخر سے کہتا کہ "میں نے گنج آباد اس طرح خاک میں ملایا ہے یہ نہ دوبارہ آباد ہوسکتا ہے اور نہ ہی سرکشی کرسکتا ہے"۔ 

کیچ کے نام کے متعلق یہ محققین کی آرا ہیں جنھیں میں سامنے لایا ہوں۔ ابھی کیچ اور بلوچستان کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جن کے ناموں کے معنی حتمی طورپر معلوم نہیں ہو سکتے۔ کیوں کہ ایسے الفاظ ہیں جو آج کل استعمال ہی نہیں ہوتے۔ اب اِن کے معنی کوئی بھی نہیں بتا سکتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیچ خود ایک بلوچی لفظ ہے کہ جس کے معنی آج بیان کیا جاتا ہے۔ 

یہ بات بھی درست ہے کہ کیچ کی سرزمین پر ایک زمانہ میں ایرانی حکم رانوں یا بادشاہوں نے  زندگی بسر کی ہے۔ جس طرح تربت کا نام ہے۔ تربت ایک فارسی لفظ ہے جس کے معنی "قبر" کے ہیں۔ ایران خراساں میں تربت نامی شہر اب بھی آباد ہے۔ اِسی طرح کیچ کے قدیم کاریزات کے ناموں میں ایرانی رنگ دیکھنے میں آتا ہے۔ مثال کے طورپر بہمن کی کاریز یا کاؤس کی کاریز۔ لیکن اِس بات سے میرا قطعی مطلب یہ نہیں کہ یہ شہر ایرانیوں کا تھا۔ بلکہ ملک شہریار کے زمانہ سے قبل بھی اس علاقے پر ھوت اور مَلِکوں کی حاکمیت رہی تھی۔ مَلِک یا میر اور سردار اُس زمانہ میں حاکموں کے صفتی نام ہوا کرتے تھے۔ 

کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں یہ کہا جائے کہ اسحاق نے الفت نسیم کی طرح علاقوں کے نام زور زبردستی غیر اقوام سے منسوب کیے ہیں۔ میں نے اوپر جو بھی بیان کیا ہے اِس ضمن میں حوالہ جات بھی پیش کیے ہیں۔ لیکن میں اِس بات پر قائل ہوں کہ کیچ زمانہ قدیم سے ہی بلوچوں کا علاقہ رہا ہے۔ 

(جاری ہے)

 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی