شکور بلوچ
سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی روز اول سے جہاں ایک طرف تو بد ترین ریاستی مظالم کا شکار رہی ہے تو وہی دوسری جانب بلوچستان کے ایک مخصوص طبقہ جو پارلیمانی طرزِ سیاست سے نالاں رہا ہےم ان کی بھی تنقید کا نشانہ بنی رہی ہے۔ اس طبقے کی جانب سے جماعت اور اس کے قائدین پہ مختلف نوعیت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ انہیں پارٹی قائدین اور خود سردار اختر مینگل کو ضمیر فروش، سازشی اور یہاں تک کہ غدار کے القابات سے بھی وقتاً فوقتاً نوازا گیا۔
بحیثیت ایک سیاسی ورکر میرا یہ ایمان ہے کہ سیاسی عمل میں درست تنقید کا ہونا کسی نعمتِ خداوندی سے کم نہیں۔ لیکن جب ٹرولنگ، کیچڑ اچھالنے اور ٹانگیں کھینچنے کو لوگ تنقید کا نام دینے لگیں تو اس سے مزید انتشار اور مایوسی پھلنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگنے والا۔ گزشتہ دنوں ملکی سیاسی صورت حال میں آئے بھونچال اور "Transaction of Power" کے نتیجے میں وفاق میں جو مخلوط حکومت بنی بلوچستان نیشنل پارٹی بھی اسی حکومت کا حصہ ہے، ایک دد وزارتیں بھی لے رکھی ہیں۔ جس کے ردعمل میں ایک بار پھر بی این پی اور بالخصوص پارٹی کے صد اخترمینگل پہ کچھ لوگوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے اور انہیں "سازشی" قرار دیا جا رہا ہے۔
لہٰذا ہم نے سوچا کہ کیوں نا موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوئے سردار اختر مینگل کی تمام سازشوں کا پردہ چاک کیا جائے۔
سردار اختر مینگل پہ تنقید رکھنے والے طبقے کی غالباً ان پہ سب سے بڑی تنقید پارلیمانی سسٹم کا حصہ بننے پر ہے۔ ہمیشہ بی این پی سے یہ مطالبہ ہوتا رہا ہے کہ وہ اس کم زور نظام سے باہر نکلے لیکن سردار اختر مینگل کے اس نظام سے نکلنے کے بعد جو متبادل انھیں "Replace" کریں گے اس پہ کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ چلیں ان صاحبان کے دل کی تسلی کے لیے ایک لمحے کے لیے ہم یہ تصور کر لیتے ہیں کہ وڈھ سے سردار اختر مینگل الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے تو یقیناً وہاں سے بد نامِ زمانہ ڈیتھ سکواڈ کے سربراہ شفیق مینگل کامیاب ہوں گے۔ اب اگر وہ سردار اختر مینگل کو شفیق مینگل سے "Replace" کرنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ کریں "سازشی" اختر مینگل پیچھے ہٹ جائیں گے۔
"سازشی" اختر مینگل کی جماعت کا سب بڑا مطالبہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا رہا ہے۔ سردار صاحب یہ "سازش" کرتے کرتے اس حد تک آ گئے کہ وزارتوں کی آفرز کے بدلے بھی انھوں نے بلوچ ماؤں کے لاپتہ بچے مانگے ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ وقتاً فوقتاً ملک کے وزیراعظم اور وزیر دفاع بھی مقتدر قوتوں کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنا کسی بھی سیاسی قوت کے بس کی بات نہیں۔ ہاں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ریاست جس کا لاپتہ افراد کے مسئلے پہ بیانیہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ " لاپتہ بلوچ دہشت گرد ہیں اور مخصوص کیمپس میں دہشت گردی کی ٹریننگ لے رہے ہیں" سے یہ بات تسلیم کروائی جائے کہ لاپتہ افراد ان کی تحویل میں ہیں۔ سردار اختر مینگل کے چھ نکات (جن میں سرِ فہرست لاپتہ افراد کے بازیابی کا مطالبہ تھا) پر اس وقت کے وزیرخارجہ سمیت اہم حکومتی اہلکاروں کے دست خط سے یہ بھی ممکن ہوا۔ " سازشی" اختر مینگل کی وجہ سے لاپتہ افراد کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پہ تسلیم کیا جانے لگا اور آج ملک کا وزیراعظم بھی اس کا اقرار کر رہا ہے۔
ہاں "سازشی" اختر مینگل شاید پارلیمنٹ سے نکل کر کسی دشوار راستے کا انتخاب شاید نہ کر سکے۔ ہو سکتا ہے اتنا کرنا اس کی بس کی بات بھی نہ ہو لیکن انھوں نے جیلیں ضرور کاٹیں، بد ترین تشدد ضرور سہا۔ حبیب جالب سمیت اپنے لگ بھگ تین سو ساتھیوں و کارکنوں کی قربانی ضرور دی۔ اگر یہ قربانیاں بھی اختر مینگل کی کسی "سازش" کا حصہ تھیں تو میرے دوستوں کی بات درست ہے۔
ہمارے دوست بلوچستان میں ہونے والے ایٹمی دھماکوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کا پورا ملبہ سردار اختر مینگل پہ ڈالتے ہیں لیکن اگر وہ گوگل پہ دو گھنٹے بیٹھ کر کچھ معلومات اکٹھی کر لیں اور تھوڑی بہت زحمت کر کے کچھ پڑھ لیں تو انھیں پتہ چلے گا کہ ایٹمی دھماکوں کے بارے میں سردار اختر مینگل تو دور کی بات اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بھی کوئی علم نہیں تھا۔
اس کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کو دولخت کرنا بھی شاید اختر مینگل کی اپنی "سازش" تھی۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ انھوں نے خود اپنے گھر پہ حملہ کروانے کی "سازش" کی اور ان کی گرفتاری اور ایک پنجرے میں عدالتوں میں پیشی بھی ان کی اپنی "سازش" ہو گی۔
اختر مینگل کے انتہائی قریبی ساتھی حبیب جالب کی شہادت بھلا اس کی سازش تھی؟
انتخابات کے وقت واضح عوامی حمایت کے باوجود بائیکاٹ کرنا بھی ان کی اپنی "سازش" تھی۔ اس کے بعد خودساختہ جلاوطنی بھی انھی "سازشوں" کا تسلسل تھی۔
قومی تحریک میں شامل اہم رہنماؤں و سیاسی کارکنوں جن کی جانیں خطرے میں تھیں، ان کو بہ حفاظت ملک سے باہر نکلوانا بھی ایک "سازش" ہی تو تھی۔
جلاوطنی ختم ہونے کے بعد ملک واپس آتے ہی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے عدالتوں کے دھکے کھانا بھی ان کی اپنی "سازش" تھی۔ 2013 کے عام انتخابات میں ان کے اکثریتی مینڈیٹ پہ ڈاکہ ڈال کر اقلیت میں بدلنا بھی ان کی اپنی "سازش" ہو گی۔
وزارت اعلیٰ سمیت صدرِ پاکستان کی آفرز کو ٹھکرانا بھی "سازشی عمل" کا تسلسل تھا۔
2018کے انتخابات کے بعد وزارتوں کی جگہ 6 نکات کا مطالبہ کرنا بھی سازش تھا
بالآخر آج ان تمام "سازشوں" سے پردہ ہٹ چکا جب 23 مسلسل "سازشیں" کرنے کے بدلے انھیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی عظیم وزارت معاوضے میں ملی۔
ایک تبصرہ شائع کریں