میں بلوچستان کے نیم سرداری، نیم قبائلی و نیم شہری اور مکمل پسماندہ علاقے کے ایک مزدور بلوچ گھرانے میں پیدا ہوا، جہاں شلوار قمیض کو ‘مذہبی’ سے زیادہ ‘ثقافتی لباس’ کے طور پر جانا جاتا ہے. لہٰذا یہی لباس ہمیں بھی ‘ورثے’ میں ملا. لیکن جس دن سے میں نے یہ ‘ پتلون شتلون’ پہنی مجھے اس انگریزی لباس کا ‘چسکا’ ہی لگ گیا.
اس میں سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ تھی کہ جتنے خرچے میں ایک بلوچی شلوار قمیض بنتا ہے، اتنے خرچے میں باآسانی 3 پینٹ شرٹس مل جاتیں اور پھر ایک پینٹ اور تین شرٹ ہفتہ بھر پہنے کو کافی ہوں تو مجھ جیسے نکمے آدمی کو اور کیا چاہیے؟ اور پھر آپ سے ملنے والا ہر دوسرا شخص جب آپ کو اس لباس کی وجہ سے “گُڈ لکنگ” کہے تو پھر کون ‘شریف’ آدمی یہ لباس نہ پہنے جو اس کے بنا یہ الفاظ سننے کو ترس رہا ہو. (حالاں کہ یہ مجھے آج تک پتہ نہیں چلا کہ “گُڈ لکنگ” تعریف میں کہتے ہیں یہ طنزیہ، بس سننے میں اچھا لگتا ہے).
لہٰذا یہ اس لباس کا ‘چسکا’ لگنے کی بنیادی وجوہات تھیں لیکن جب میں نے اپنا آبائی نیم قبائلہ علاقہ چھوڑ کر کوئٹہ میں قیام کرنا شروع کیا تو روز بروز اس لباس کے کچھ نئے ‘فوائد’ مجھ پر عیاں ہوتے گئے. حالاں کہ کوئٹہ میں بھی آج تک اس انگریزی لباس کے پہننے والے آپ کو چند گنے چننے افراد ہی ملیں گے. لیکن اس کی اتنی افادیت کی وجہ بھی شاید یہی ہو کہ یہ کوئی انتہائی نایاب لباس ہے. بہر کیف کوئٹہ میں ‘سوٹڈ بوٹڈ’ رہنے کے دو انتہائی اہم ترین ‘فوائد’ آپ کے لیے ذیل میں درج کر رہا ہوں.
سرکاری لائنوں سے چھٹکارا:
اگر آپ کوئٹہ میں پینٹ شرٹ پہن کر کسی بھی سرکاری دفتر جائیں تو آپ کو وہاں لگی لمبی قطاروں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا. اور وہ سرکاری افسران جو کسی شریف انسان کے جائز معمولی سے کام کے لیے چار چار گھنٹے بٹھائے رکھتے ہیں وہی آپ کا گھنٹوں والا کام بھی منٹوں میں کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں. حتیٰ کہ کچھ سرکاری افسران مجھ جیسے ‘جاہل’ آدمی کو بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ گردان کر حد درجے کی عزت افزائی کرنے لگتے ہیں کہ بندہ خود بھی شرمندہ ہونے لگتا ہے، لیکن مکمل تعارف جان کر ان کو یقنیآ مایوسی ہی ہوتی ہے.
کوئٹہ کینٹ میں داخلہ آسان:
کوئٹہ کینٹ پاکستان کا شاید وہ واحد علاقہ ہے جہاں پر داخلے کے لیے آپ کا قومی شناختی کارڈ بھی ناکافی ہوتا ہے (اور اسرائیل کے بعد دنیا کا دوسرا علاقہ جہاں پاکستانی پاسپورٹ بھی کارآمد نہیں ہوتا). جو قارئین حیرت و تعجب کا شکار ہو رہے ہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض کر دوں کہ کوئٹہ کینٹ میں داخلے کے لیے مخصوص ‘کینٹ پاس’ بنتا ہے جو کہ اس کینٹ کے علاقے میں داخلے کا ‘اجازت نامہ’ ہوتا ہے اور یہ پاس بنوانے کے لیے ہندوستان کا ویزا لینے سے بھی زیادہ مشکل عمل سے گزرنا پڑتا ہے. (اتنی سخت سیکیورٹی دیکھ کر کبھی کبھار تو گمان ہوتا ہے کہ ہندوستان اور افغانستان کی سرحدیں شاید کوئٹہ کینٹ کے اندر سے ہی گزرتی ہیں.)
خیر بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی…! الغرض، ‘کینٹ پاس’ بنوانا بھی مجھ جیسے ‘مزدور’ آدمی کے بس کی بات نہیں. لیکن اگر آپ اس انگریزی لباس میں “وِیل ڈریس” ہو کر کینٹ کے کسی بھی داخلی دروازے پر جائیں تو یقین مانیں بہت ‘افاقہ’ ہوتا ہے، انگریزی لباس اور مکمل و مہذب اردو کے ساتھ آپ صرف قومی شناختی کارڈ حتیٰ کہ ‘اسٹوڈنٹ’ کارڈ بطور ضمانت رکھوا کر کینٹ میں داخل ہو سکتے ہیں.
نوٹ: یہ ‘سہولت’ اب تک صرف کوئٹہ اور بلوچستان کے چند علاقوں میں ‘دستیاب’ ہے، باقی حضرات اپنے اپنے مقامی ‘طریقہِ واردات’ کے مطابق اپنے لیے ‘سہولیات’ تلاش کریں.
ایک تبصرہ شائع کریں