ڈاکٹر شاہ محمد مری
کتاب کیا ہے؟۔ یہ پیچیدہ ترین مخلوق یعنی انسان کی پیچیدہ ترین تخلیق ہے۔ کتابوں کے ساتھ انسان کا سلوک بھی عجب رہا ہے۔ ابھی چھ آٹھ ماہ قبل پورے مکران ڈویژن میں کتاب گھروں پر سرکاری یلغار کی گئی تھی۔ بے شمار کتابیں ضبط کی گئیں اور ہم مصنفوں کو خطرہ ہوا کہ پھر ضیا الحقی گرفتاریاں جیلیں نصیب ہوں گی۔ مگر،پھر صوبے کے وزیراعلیٰ کا دستِ ِراست کتب میلہ کا افتتاح کرتا ہے۔اور انہی لوگوں کی کتابوں پر مشتمل میلے کا افتتاح کرتا ہے جن کی کتابیں محض چھ ماہ قبل ضبط کردی گئی تھیں۔ کتاب حیران، قلم حیران، کاغذ حیران۔ کل یہ کہہ کر بک شاپس پہ چھاپے مارے جارہے تھے کہ کتاب ریڈیکلائزیشن کراتی ہے، آج یہ کہہ کر افتتاح ہورہا تھا کہ کتاب ریڈکلائزیشن سے بچاتی ہے۔کتاب سے عشق زندگی کا ایک ایساخوب صورت تجربہ ہے جو آخری سانس تک ساتھ دیتا ہے۔ کتاب پکی اور بہت دیر تک رہنے والی دوست ہے۔انٹرنیٹ،فیس بک اور اس کے منابع و شاخیں آج کی حقیقت ہےں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کتاب ختم ہونے والی ہے ۔ وہ چھ ہزار برس سے کسی نہ کسی رنگ روپ میں ہمارے ساتھ ہے اور اس سے عشق، زندگی کا سب سے خوب صورت عشق ہے۔ کتاب سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے ، اوراس کی رائے سے متفق بھی ہوا جاسکتا ہے۔ ہم نے محبت اور نفرت دونوں جذبات کے ساتھ کتاب پر حملے دیکھے ہیں۔یہ اگر برناڈ شاہ کی ہے تو ہنسائے گی ،اسکائی لس کی ہوگی تودھڑکنیں کو غم ناک سینہ کوبی کی ریکارڈنگ بن جاتی ہیں۔ نیند نہ آئے توسونے میں مدد گار ہوگی ، حرکت کرنا چاہو تو یہ تحریک دے گی ۔ اپنے حلقے ،حصار میں رکھے گی، راہنما بنے گی۔کتاب ہمیں انسانی زندگی کی نزاکتوں سے آشنا کرتی ہے ۔
شکر ہے کہ بلوچستان محض کتاب جمع نہیں کرتا، محض اسے سٹور نہیںکرتا، بلکہ وہ اسے پڑھتا بھی ہے۔مہذب انسان اور مہذب معاشروں کی پہچان ۔
کتاب ….یہ لفظ اگرعبرانی، لاطینی اور عربی میںہے تو کیا تقدس بھرے مذہبی معنی دیتا ہے۔کتاب ،اگر فارسی بلوچی میں کہیں تو کیا کیا تنوع ہوگا اس کے معانی میں۔بنےے کی دکان میں اس کا مطلب وہی ہوتا ہے جو کھلونے بیچنے والے کی ریڑھی پر رکھے چینی کھلونے کا ہوتا ہے۔ لائبریری میں ہے تو آن شان اور ہے، گھر میں ہے تو مقام کچھ اور ۔ فٹ پاتھ پہ وصل کے لےے پڑی ہو تو اُس کا عاشق سب سے وفادار ، اپنا سب کچھ لٹایا ہوا، اور مقدس ترین روح کا مالک ہوگا۔کتاب اگرردی فروش کے ترازو میں ہے تو گویا انسانی شرف وقار اور عصمت سرِ عام وحشی اور نا پالتو آدم نما مردم زادکے گوح جیسے کھردرے پنجوں ناخنوں میں تار تار ہورہی ہو۔کتاب کورس کی ہو تو بلوچستان میں اُس کے ساتھ امتحانی ہال میں بدن دریدگی ہوگی ، اور اگر عبادت گاہ میں ہو تو اُس کے متن و معانی کا اِس زندگی اِس دنیا سے تعلق باقی نہیں رہتا ۔ کتاب اگر فرقہ وار کے حوالے کیا جائے تو یہی کتاب بربادی کا موجب ہوگی۔اورکتاب جب تقدس کی علامت بنتی ہے تو قتل و جائیداد کے فیصلوںکے لےے محض اس کا نام لینا ہی کافی ہوتا ہے ۔کتاب وکیل کے پاس ہوتی ہے تو اس کے بخےے ادھڑ دےے جاتے ہیں ،اسے ننگا کیا جاتا ہے۔ عدالت میں ہو تواسے جذبات ومحسوسات کی قبر بنایا جاتا ہے۔اوراگر پھانسی گھاٹ میں ہے تو عزم و استقلال ،شاشان کو ہ سے بلند ہوجاتاہے۔
آئیے ہم و ہ چینی نظم پڑھ لیں جو بدھ مت سے دور لے جانے والی ”اس“ چیز کی مذمت میں کہی گئی ہے۔ اور وہ چیز ہے کتاب :
نہ پڑھ کتابیں
نہ گا نظمیں
جب تم کتابیں پڑھوگے تو تمہاری آنکھوں کے ڈھیلے سوکھ جائیں گے،
جب تم نظمیں گاوگے تو تمہارا دل آہستہ آہستہ باہر کو بہہ نکلے گا
ہر لفظ کے ساتھ ،
لوگ کہتے ہیںکتاب پڑھنا مسرت بخش ہوتا ہے،
لوگ کہتے ہیں نظمیں گانا پر لطف بات ہے،
لیکن اگر تمہارے لب متواتر ایسی آواز نکالیں
جیسے خزاں میں جھینگے جیسا کیڑا نکالتا ہے
تو تم محض ایک بڈھے باتونی لاغرشخص میں تبدیل ہوجاو گے
اور اگر تم ایک بڈھے لاغر باتونی شخص میں تبدیل نہ بھی ہوجاو
تو بھی دوسروں کے لےے تمہارا سننا نا خوش گوار ہے
یہ بہت بہتر ہے کہ
تم اپنی آنکھیں بند کرلو، اپنے کمرے میں بیٹھ جاو
پردے گرادو، فرض جھاڑ دو،
خوشبودار جھاڑی کا دھواں کرو
ہوا کو سننا خوب صورت ہے،
بارش کو سننا ،
جب توانا بنو تو ایک چہل قدمی کرلو،
اور سو جاو جب تم تھک جاو!!
اب ہم ماوزے تنگ جتنے بڑے تو ہیں نہیں کہ اس موضوع پہ کتابچہ لکھیں:” کتاب پرستی کی مخالفت کی جائے “۔ نہ ہی ہم نے ایک بار سی آر اسلم کے جھڑکنے کے بعد بُلھے شاہ کا یہ مصرع دہرانے کی دوبارہ کبھی جرات کی : ” علمو بس کریں اویار“ ۔
ہمارا بس یہ خیال ہے کہ کتاب احمقی کے تسلسل میں رکاوٹ بنتی ہے۔ کتاب جہالت کا انٹی ڈوٹ ہوتی ہے، کتاب وحشی کے پتھردل کو موم بناتی ہے( بشرطیکہ آسمان بھی اُس پہ مہربان ہو)۔
جس گھر میں کتاب نہ ہو‘ وہ گھر نہیں مارشل لا ہیڈ کواٹر ہے۔ جس گاﺅں میں کتاب گھر نہ ہو، ویرانی اس کا مقدر ہو۔
(آنے والی کتاب ”بلوچ ساحل اور سمندر“ سے انتخاب)
ایک تبصرہ شائع کریں