{ads}

جمیل بزدار: 

یہ سنگت نواز کھوسو کی پروفائل تھی کہ جس میں کسی سیاسی کارکن کی یاداشت پر مبنی قسط وار سریز فیس بک پر دیکھی تھی۔ سنگت نواز کھوسو نے شاید کامریڈ رفیق کھوسو کے ہی پرفائل سے یہ یاداشتیں شئیر کی ہوئی تھیں۔ ایک آدھ یاداشت تو وہیں فیس بک پر ہی پڑھ ڈالی۔ ساتھ سنگت رفیق کو فرینڈ ریکوسٹ بھی بھیج دی کہ وقتاً فوقتاً ان اقساط کو باقاعدہ پڑھتا رہوں گا اور ساتھ پچھلی اقساط بھی پڑھوں گا لیکن اس کے بعد کوئی نئی قسط سوشل میڈیا پر نہیں آئی اور نہ میں پچھلی اقساط پڑھ سکا۔ 

پھر ایک دن سنگت نواز کے ہی پروفائل سے دیکھا کہ کامریڈ رفیق کھوسو کی کتاب خارزارِ سیاست میں مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ ملنے کا پتہ پوچھا لیکن سستی کی وجہ سے نہ لے سکا۔ پھر عابد میر نے ایک دن پوسٹ کی کہ یہ کتاب کم پڑ چکی ہے، صرف چند ایک کاپیاں بچی ہیں۔ لہٰذا عابد میر صاحب نے سنگت رفیق کو مشورہ دے ڈالا کہ نئے ایڈیشن کی تیاری کریں۔ میں ابھی تک اسی سوچ میں تھا کہ نیا ایڈیشن آئے گا۔ پھر لوں گا یا کوئی سرپھرا دوست پی ڈی ایف بنا کر شئیر کرے گا تو پڑھ لیں گے۔ لیکن خوش قسمتی سے پچھلے مہینے سنگت پوہ زانت میں کتب میلہ لگا، وہاں عابدمیر صاحب اس کتاب کی تین کاپیاں اپنے ساتھ لائے۔ چنانچہ پوہ زانت کے شروع ہونے سے پہلے ہی ایک کتاب اپنے نام کر لی کیونکہ اس کے شارٹیج کا پتہ تھا۔

کتاب سست روی سے پڑھی لیکن جب پڑھنے بیٹھا تو اٹھنے کو دل نہ کیا۔ اڑھائی سو صفحات کی کتاب پچاس پچاس صفحات کر کے پڑھ ڈالیں۔ تبصرہ لکھنے میں دیر ہوئی۔

کامریڈ رفیق چوں کہ سندھ میں زیرتعلیم تھے۔ اس لیے وہاں کی سیاست پر اپنی یادوں پر مبنی ایک خوب صورت دستاویز بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اپنی طالب علمی کے زمانے کی سیاست سے لے کر ماس پولیٹکس تک کامریڈ ہر بات کو بیان کر کے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ بقول ان کے انھوں نے ڈائری مینٹین نہیں کیا اور بہت سی چیزیں یادداشت کے دریچوں سے باہر نکل کر غائب ہوگئی ہیں۔ لیکن باوجود اس کے جس انداز میں کتاب لکھی گئی۔ وہ میرے خیال سے تمام بنیادی باتوں کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں ربط ٹوٹنے کا احساس ہوتا ہے اور کچھ ایونٹس آگے پیچھے ہیں، جو کہ کامریڈ کے مطابق سوشل میڈیا پر قسط وائز شئیر کرنے اور پھر کوئی واقعہ یاد آنے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ امید ہے نئے ایڈیشن میں ان ایونٹس کو ترتیب کے ساتھ رکھا جائے گا۔

کتاب کا پیش لفظ عبدالمالک بلوچ، رفیق کھوسو اور ان کے دور کے حالات سہیل سانگی، رفیق کھوسو کی یاداشتیں رحیم بخش جعفری اور ابتدائی دو حرف رفیق کھوسو کے مضامین سے کتاب کی شروعات ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنا تعارف لکھتے ہیں اور پھر 1975 سے اپنی سیاسی زندگی کی یاداشتیں لکھنا شروع کرتے ہیں۔ کامریڈ لکھتے ہیں کہ ان کے لیے 1975 کا سال خوش قسمت ثابت ہوا کیونکہ اسی سال میں شادی بھی ہوئی اور بی ایس او کے سیکرٹری جنرل کے لیے بھی ان کا انتخابات ہوا۔ بی ایس او ان ادوار میں ایک ایکٹو سیاسی طلبا پلیٹ فارم کی حثیت سے کام کر رہی تھی۔ اسی دوران انھیں گرفتار بھی کیا گیا۔ مگر سیاسی میدان سے جڑے رہے۔

سندھ میں بلوچ سیاست اور دوسری طلبا تنظیموں کے بارے میں اور ان کی ایکٹوٹیز کے بارے میں بتاتے ہوئے کامریڈ لکھتے ہیں کہ ایک بار سندھ کی ایک طلبا تنظیم نے وزیر ٹرانسپورٹ کو اغوا کیا اور یہ بات پورے میڈیا پر چلی لیکن طلبا کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے انھوں نے اپنے وہ اہداف حاصل نہ کیے، جو وہ کر سکتے تھے۔ یعنی اپنے طلبا رہنماؤں کی رہائی کا مسئلہ۔ لاہور کے ایک سیشن میں کہ جہاں حبیب جالب بھی تھے وہاں جمعیت کے طلبا نے سیشن کو خراب کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئے۔

بی ایس او کے بارے میں جاننے کے لیے انٹرنیشنل صحافی سیلگ ہیریسن سے ملاقات اور انٹرویو بھی دیا۔ کمیونسٹ پارٹی سے جڑ کر لیفٹ کی سیاست میں بھی اپنا حصہ ڈالتے رہے لیکن چونکہ پارٹی میں اجارہ داری قائم تھی اور نظریاتی ساتھیوں کے خیالات کا احترام نہیں کیا جاتا تھا۔ اس لیے پارٹی سے دل برداشتہ ہو کر اسے کنارہ کشی اختیار کی۔ بابا بزنجو کے آخری ایام کے بارے میں بھی اپنی یادداشت کی پرتیں کھول کر لکھتے ہیں اور نواب اکبر بگٹی سے ملاقات کے بعد جے ڈبلیو پی میں شمولیت کرتے ہیں۔

ڈیرہ بگٹی میں کشیدگی اور نواب بگٹی کے پہاڑوں پر جانے اور شہید ہونے تک کامریڈ اس مشکل وقت میں بھی جے ڈبلیو پی شامل رہے اور فرنٹ مین کا رول ادا کرتے رہے۔ نواب بگٹی کے بعد جب براہمدغ کو پارٹی چیف آرگنائزر بنایا گیا تو اسی دوران کامریڈ لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ دو ہفتوں کے بعد منظرعام پر لائے جانے اور پھر جیل میں منتقل کیے جاتے ہیں۔ جہوری وطن پارٹی سے ہی نئی تنظیم بی آر پی کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے لیکن کامریڈ رفیق کھوسو اس کی مخالفت کرتے ہیں اور یوں سیاسی دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور اپنا سیاسی سفر کے ایک عہد کے اختتام کے ساتھ کتاب ختم ہوجاتی ہے۔

اس کتاب میں بہت سے باتیں موجودہ سیاست خصوصا طلبا سیاست کو سمجھنے کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے، جو غلطیاں ماضی میں ہوئیں ان کو دہرانے سے بچنے کے لیے طلبا سیاست سے جڑے دوستوں کو یہ کتاب لازم پڑھنا چاہیے۔ آخر میں کامریڈ رفیق کھوسو کے اس کاوش کو سراہتے ہوئے، سیاست سے جڑے دوسرے لیڈران سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالیں اور اپنی یاداشت پر مشتمل دستاویزات منظر عام پر لائیں کہ جس کی اشد ضرورت ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی