{ads}


خلیل رونجھو

اس ڈیجٹلائزیشن کے دور میں اگر آپ اپنے علاقے کی صورت حال سے لوگوں کو آگاہ کرنے یا اپنے اردگرد ہونے والے واقعات پرروشنی ڈالنے کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو گویا آپ شہری صحافی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آج کے سیل فون اور ٹیبلٹ جدید ترین تصویر اور ویڈیو شوٹ کرنے کی صلاحیتوں سے آراستہ ہیں۔ جدید دور کی اس ٹیکنالوجی نے شائقین کی صلاحیتوں کو بڑھا دیا ہے۔ اب ان کے ہاتھوں میں ایک ایسا آلہ موجود ہے جو باآسانی فوٹو اور ویڈیوز بنا کر تیزی کے ساتھ ان میں ترمیم کر کے اپنی کہانی کو انوکھے انداز میں اور اپنے نقطہ نظر سے سنانے کی سہولت دیتا ہے۔ اسی وجہ سے عام افراد کو میڈیا کے کام میں شامل ہونے، موبائل صحافت کے رجحان کی طرف راغب ہونے، اسٹوریاں بنانے، اور موبائل فلم بنانے کی ترغیب ملتی ہے۔

موجو پاکستان نامی آرگنائزیشن کے بانی ایاز خان کہتے ہیں، پاکستان میں موبائل جرنلزم خبروں کی رسائی او راس سے جڑی کہانیوں کو منفرد انداز میں سامنے لانے کا رحجان تیزی سے بن رہا ہے۔ ایک موبائل جرنلسٹ یا ایک فری لانس جرنلسٹ اپنے اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس، ڈیجیٹل کیمرے یا لیپ ٹاپ کو خبروں کے اجتماع، شوٹنگ، براہِ راست نشر، تصویری کہانیوں کی اشاعت، ایڈیٹنگ یا خبروں کا اشتراک کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بنیادی طور پر، یہ کسی بھی شخص کو کیمرہ مین، ایڈیٹر یا دوسری صورت میں خبروں کے پروڈیوسر، ایڈیٹر اور نشرکار کا کردار سنبھالنے کی سہولت دیتا ہے۔ یہ خبریں کسی نیوز روم میں بھیجی جا سکتی ہیں یا اپنے انٹرینٹ کے ذریعہ براہِ راست سوشل میڈیا پر شیئر کی جا سکتی ہیں، جس سے آپ اپنے مقاصد بہتر طریقے سے حاصل کرسکتے ہیں۔

میں بلوچستا ن میں سماجی کارکن کے ساتھ ساتھ بطور شہری صحافی بھی عرصہ دارز سے پرنٹ و سوشل میڈیا کے ذریعے سماجی و معاشرتی موضوعات پر بات کرتا رہا ہوں۔ جن میں تعلیم، خواتین، انسدادِ منشیات، صحت کے ساتھ ساتھ ماحولیات کی بہتری کے لیے اپنی بہت ساری اسٹوریاں شامل ہیں، جس کو سوشل و پرنٹ میڈیا پر بہت سراہا جاتا رہا ہے۔ ماحولیات سے جڑے مسائل یا پھر موسمی تغیرات کے چیلجز، ماحول دشمن انسانی رویوں پر ہمارے پورے صوبے خاص کر جیونی سے لے کر گڈانی کے ساحلِ سمندر تک ان موضوعات پررپورٹنگ، ایڈوکیسی و موبلائیزشن کی بہت ضرورت رہی ہے۔ کیوں کہ بلوچستان فطرت و قدرت کے حسن کا شہکار رہاہے جہاں آپ کو طویل ساحل، سمندری حیات، جنگلات، مختلف اقسام کے جانور، حشرات، چرند پرند، پہاڑ، دریا ملتے ہیں۔ جہاں دنیا بھر کو موسمی تغیرات کا سامنا ہے، وہیں پاکستان اور ہمارے صوبہ بلوچستان کی کمیونٹی کو بھی شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔

ماحولیات سے منسلک ان تمام مسائل کو کس طرح ہائی لائیٹ کیا جائے؟ کس طرح حکومتی اداروں کے ساتھ ایڈوکیسی کی جائے تاکہ بہتر پالیسی تشکیل دے کر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور کس طرح کمیونٹی موبلائزیشن کی جائے کہ کمیونٹیز ان موسمی تغیرات کے عمل کو سمجھ سکیں اور کم از کم نقصانات کا سامنے کر سکیں اور ان سب کے لیے کس طرح موبائل فون و انٹرنیٹ کے ذریعے ڈیجیٹل ٹولز کو بہتر استعمال کرتے ہوئے صحافت کو فروغ دیا جائے؟ ان مسائل و معاملات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے معروف ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے لیے ماحولیاتی صحافت کے حوالے سے دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا، جس میں بلوچستان کے دیگر متحرک دوستوں کے ساتھ مجھے بھی جناب طاہر رشید کی دعوت کی بدولت سیکھنے کا موقع ملا جو کہ ایک منفرد لرننگ فل سرگرمی رہی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے زیراہتمام جاری دو روزہ ورکشاپ میں پاکستان کے موسمیاتی اور ماحولیاتی مسائل، ان کے تدارک، آئندہ درپیش خطرات کی پیش بندی پر ماہرین نے اظہارِ خیال کیا۔ اس موقع پر سندھ، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سمیت الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پاکستان کے متنوع ماحول اور اسے لاحق خطرات کی نشان دہی کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف سندھ، بلوچستان کے ریجنل ہیڈ ڈاکٹر طاہر رشید، ماحولیاتی صحافی شبینہ فراز، موبائل جرنلزم کے ماہر ایاز امتیاز، سوشل میڈیا کے ٹرینر حسن ضیا، عرب نیوز کے نعمت اور معروف صحافی سدرہ ڈار، بلوچستان سے ایوب ترین، شمس الحق و دیگر نے خطاب کیا اور ماحولیاتی صحافت کے حوالے سے اپنے تجربات شیئر کیے۔

ورکشاپ کے پہلے دن ماحولیات سے جڑے مسائل پر سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ جب کہ اگلے دن ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ویٹ لینڈ سینٹر کا وزٹ کروایا گیا، جہاں شرکا نے تمر کے پودے لگائے۔ اپنی ماحولیاتی ویڈیوز شوٹ کیں۔ ڈاکٹر طاہر رشید ڈبلیو ڈبلیو ایف میں سندھ بلوچستان کے ڈائریکٹر ہیں۔ جن کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ ڈاکٹر صاجب عرصہ دراز سے تحفط ماحول سرگرمیوں میں شریک رہے ہیں۔ انھوں نے ورکشاپ کے شرکا سے ماحولیات کے موضوع پر عوام میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے میں صحافیوں کی اہمیت پر زور دیا۔

انھوں نے بتایا پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جسے قدرت نے متنوع نظامِ حیات بخشا، مگر پاکستان میں بے دردی سے شکار کرنا مشغلہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بہترین ماحولیاتی قوانین موجود ہیں، جن پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ موسمی تبدیلوں کے پیشِ نظر ہمیں اپنے ماحولیاتی تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کرنے ہوں گے۔ حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ ماحولیات کو بہتر بنانے اور موسمی تبدیلیوں کے پیشِ نظر ایسے ٹھوس اقدامات کرے تاکہ آنے والی نسل صاف اور بہتر ماحول میں زندگی بسر کر سکے، ہماری آنے والی نسلیں ایک پُرفضا، آلودگی سے پاک صاف اور پُرامن ماحول میں پروان چڑھیں اور موسمی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے نقصانات سے بھی پہلے تیاری کر کے دفاع کریں۔

شبینہ فراز پاکستان کی پہلی ماحول دوست لکھاری ہیں جو عرصہ دارز سے بطور ماحول دوست لکھاری ملکی و غیر ملکی اخبارات و جرائد میں لکھتی رہی ہیں۔ انھوں نے ورکشاپ کے شرکا کو بتایا کہ دنیا کے دوسرے بڑے انڈس ڈیلٹا میں سمندری پانی کے چڑھنے، زراعتی زمین کی عدم دستیابی، تیمر کے بے دریغ کاٹنے سے مچھلی اور جھینگوں کی معدومیت کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ تیمر کے درخت کو سمندری حیات کے لیے محفوظ پناہ گاہ مانا جاتا ہے۔ ماحولیاتی صحافت پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہ ایک صحافی کی ذمے داری ہے کہ اپنے اردگرد ماحول کے مسائل سے پوری طرح باخبر ہو کر رپوٹنگ کرے۔ پلاسٹک کو ایک خطرہ قرار دیتے ہونے انھوں نے کاغذ اور کپڑے کے بنے ہوئے بیگز کے استعمال پر زور دیا۔ انھوں نے اپنے پیشہ ورانہ تجربات بھی شیئر کیے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ترجمان سعید نے حاضرین کو بتایا کہ پاکستان میں کل ساڑھے چار لاکھ ہیکٹرز پر تیمر کے جنگلات موجود ہوا کرتے تھے۔ ایندھن کی خاطر ان کی لکڑیاں کاٹنے سے ان کی تعداد گھٹ کر محض پچاسی ہزار ہیکٹر رہ گئی تھی۔ مگر اب مقامی افراد کے تعاون سے ان کی تعداد ڈھائی لاکھ ہیکٹر ہو چکی ہے۔ اس سلسلے میں مقامی افراد کو پودے تیار کرنے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے اور پھر ان سے وہ پودے خرید کر لگائے جاتے ہیں۔

اس موقع پر موبائل جرنلزم کے ماہر ایاز امتیاز خان نے صحافیوں کو آئندہ وقتوں میں موبائل جرنلزم کی اہمیت سے روشناس کرایا اور اس سلسلے میں کارآمد تکنیک اور ٹولز کے استعمال کی معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ زمانہ تیزی سے ڈیجیٹل ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں اطلاعات کی فراہمی محض خبروں تک محدود نہیں۔ سوشل میڈیا تک آسان رسائی اور استعمال کی بدولت اب ہر فرد خود ہی رائٹر، کیمرہ پرسن، ایڈیٹر، اینکر اور پبلشر کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی کوارڈینیٹر مس حمیرا نے بتایا کہ ماحولیاتی صحافت میں خواتین صحافی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ماحول کی بہتری کے لیے کیے گئے انفرادی یا حکومتی اقدامات کو بہتر طریقے سے ہائی لائیٹ کر کے ان کو کوششوں کو سراہا جا سکتا ہے اور ماحول دوست رویوں کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس فیلڈ میں صحافیوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں ماحولیاتی صحافیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے تاکہ ماحولیاتی مسائل پر زیادہ سے زیادہ رپورٹنگ کی جا سکے اور موسمی تغیرات کے خطرات سے ٹمنٹے کے لیے تیاری کی جا سکے۔

ویٹ لینڈ مینگروز فاریسٹ کے انچارج عبدالرحمٰن نے بتایا کہ پاکستان میں ویٹ لینڈز کی بہت اہمیت ہے۔ اس کے پیچھے بیک واٹر چینل اور سامنے سمندر ہے۔ یہ پرندوں اور مختلف اقسام کے جانوروں کی آماج گاہ اور مسکن ہے۔

ورکشاپ کے دوسرے دن کے شرکا نے تیمر کی شجرکاری اور سرگرمی کے طور پر ماحولیات کے موضوع پر فوٹو جزنلزم کی تکنیک پر مبنی وڈیو کلپس بنا کر داد حاصل کی۔

پاکستان میں ماحولیاتی مسائل پر لکھنے، اسٹوری بنانے اور شیئرنگ کے رجحان کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے ساتھ حکومت بھی موسمی تغیرات کے چیلجز کا ادارک کر سکیں اور ان مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی کا مظاہر ہ کیا جا سکے۔ ملک بھر میں اس طرح کی ٹریننگ کے مواقع کے ذریعے صحافیوں کی استعداد کاری کی جائے، ان کی تعداد کو بڑھایا جائے اور ماحول دوست صحافیوں کا ملکی سطح کا نیٹ ورک قائم کیا جائے۔ جہاں تمام قلم کار ان مسائل پر بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ رپورٹنگ و تجزبات کر سکیں۔ اس سلسلے میں حکومت بھی اس طرح کی غیرسرکاری تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرے جو SGDs کی بہتری کے لیے حکومت کی معاونت کر رہی ہیں تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ماحول بہتر بنانے کی کوششوں کو بھی سراہایا جائے۔


 



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی