عبدالحلیم
بلوچستان کی سرزمین اپنے غیرمعمولی جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے دل فریب نظاروں کا مرکزِ نگاہ ہے۔ یہاں کے ساحل ہوں یا پہاڑی سلسلے، یہ سحرانگیزی کا حسین امتزاج ہیں۔ مکران کوسٹل ہائی وے پر دورانِ سفر بُزی کی پہاڑیاں حیرت کدہ کی مانند ہیں۔
یہ پہاڑیاں شمالی علاقہ جات یا کشمیر کی طرح ہریالی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور نہ اِن میں سے آبشار پھوٹتے ہیں لیکن قدرت نے جس ترتیب سے اِن کو رکھا ہے، یہ دیکھنے والوں کو حیرت زدہ ضرور کرتے ہیں۔ بُزی کی پہاڑوں کے درمیان جب سڑک ناگن کی طرح بل کھاتی ہوئی گزرتی ہے تو پہاڑوں کی ساخت مختلف مناظر کے عکس منکشف کرتی ہے۔
بُزی کی پہاڑیاں پتھروں اور مٹی کے امتزاج پر مبنی ہیں۔لیکن اِن پہاڑوں کی ساخت غیرمعمولی عکس کشی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے۔ پہاڑوں کے ٹیلوں پر کسی بادشاہ کے محل اور قلعہ کی شبیہہ کا گمان ہوتا ہے۔ قلعہ کی حفاظت کے لیے سپاہ کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ پہاڑوں کے اونچے ٹیلوں پر بیٹھے ہوئے ببر شیر کا مجسمہ سر اٹھائے ہوئے نظر آتا ہے۔
ٹیلوں پر کسی بادشاہ کا مجسمہ طمطراق سے کھڑا نظر آتا ہے اور ان مجسموں میں کوئی ملکہ یا شہزادی محل سے باہر نکل کر قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتی نظر آتی ہے۔ اِن پہاڑوں کے ٹیلوں پر عمارتوں کی شبیہہ کا تصور بھی ذہن میں ابھرتی ہے۔
ہوا کی رگڑ نے تراش تراش کر ان کو مختلف شکل دے دی ہے۔ اِن میں ایک مجسمہ بہت زیادہ مشہور ہے جسے پرنسس آف ہوپ یعنی امیدوں کی شہزادی کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب امریکہ کی معروف اداکارہ انجلینا جولی پاکستان کے دورہ پر آئے تھی تو اس نے اس مجسمہ کو پرنسس آف ہوپ کا نام دیا تھا جو تب سے مشہور ہوگئی ہے۔
بُزی کے پہاڑی ٹیلوں کے سلسلے قدرت کی انمول کاری گری کا نمونہ ہیں۔ اِن کی یہ غیرمعمولی ساخت اور قدرتی مجسمے سیاحت کے فروغ اور تاریخی ورثہ کو محفوظ بنانے کے حوالے سے توجہ طلب ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں