ڈاکٹر حامد علی بلوچ
شعبہ بلوچی، جامعہ بلوچستان، کوئٹہ
مادری زبانوں میں سوچنے، لکھنے، پڑھنے اور اُنہیں شناخت کا حصّہ بنانے کا عمل بہت قدیم ہے، لیکن ”نیشن اسٹیٹ” تھیوری کے عمل میں آنے کے بعد یہ عمل شدّت سے محسوس کیا گیا۔ اُنیسویں صدی کی اِبتدا سے لیکر اکیسویں صدی تک یورپ، امریکا، ایشیا اور افریقہ میں مادری زبانوں کی شناخت کے حوالے سے انقلاب برپا ہوئے جس میں کئی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور آخرکار بہت ساری زبانوں کو سرکاری زبان کی حیثیت مل گئی۔ ۱۹۲۴ کو سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹ جانے کے بعد کمال اتا ترک نے عربی زبان کی جگہ ترکی زبان کو ریفارم کر کے تُرکی کی سرکاری زبان بنادی۔
۲۵ ستمبر ۱۹۵۲ میں تامل زبان کو سرکاری حیثیت دینے کی تحریک کے سربراہ پوتی سری رمولو نے ۵۸ دن کی بھوک ہڑتال کے بعد ہندوستان کے جنوبی شہر مدراس میں جان دے دی۔ اُس کا مطالبہ یہ تھا کہ تیلنگانہ علاقے کو ایک ایڈمنسٹریٹو علاقہ تسلیم کر کے تامل زبان کو سرکاری حیثیت دی جائے اور مدراس کو اُس کا دارالحکومت بنایا جائے۔
۱۹۴۷ کو پوتی سری رمولو برطانوی سامراج کے چلے جانے اور ہندوستان کی صوبائی حدبندیوں سے بہت مایوس اور نالاں تھے، اُس کو خدشہ تھا کہ اگر تامل مختلف علاقوں میں مُنقسم ہوئے تو اُن کی مادری زبان کو ختم ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سری رمولو کی موت کی خبر پورے تیلنگانہ علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ رمولو کے پیروکار دُکانوں، ریلوے اسٹیشنوں، بس اَڈوں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے لگے۔ اِس دنگے میں کئی لوگ پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہوگئے اور کئی مرگئے۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے چار دن بعد میڈیا کے ذریعے اعلان کروایا کہ علیحدہ تامل صوبہ بنایا جائے جس کا نام آندھرا پردیش رکھا جائے۔
۱۹۶۰-۱۹۶۱میں سَنت فتح سنگھ اور ماسٹر تارا سنگھ ہندوستان میں پنجابی صوبے کے قیام اور پنجابی زبان کو مادری زبان کی حیثیت نہ دینے پر ۴۸ دن تک بھوک ہڑتال کی لیکن اُن کی کوششیں بار آور نہ ثابت ہوسکیں اور اُن کی موت واقع ہوئی۔ اِسی طرح ۱۹۶۴-۱۹۶۵میں تلگو زبان کو صوبے کی زبان کی تاخیر کی صورت میں بھوک ہڑتال اور خود کشی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا، جو حکومت ہند کے لیے درد سر بن گیا۔ ۱۹۶۴ میں مدراس ” موجودہ چنّئی” سے تین سو کلومیٹر دور کے ایک گاوں میں ”چِنّاسامی” شخص نے” تِروچرا پَلّی ریلوئے اِسٹیشن” پر اپنے آپ پر پٹرول چھڑک کر اِس لیے خود سوزی کی وہ اپنے لوگوں کو اپنی مادری زبان کے حوالے سے سرکاری رویہ سمجھا سکے۔ ۱۹۶۵ میں چِنّاسامی کے مزید آٹھ پیروکاروں نے تامل زبان کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاجاَََ خود سوزی کی، اُن کا کہنا تھا کہ تامل زبان ہے اُن کی شناخت ہے اگر تامل زبان نہیں رہے گی تو تامل بھی نہیں رہیں گے۔
آزادی کے ساٹھ سال بعد ہندوستانی آئین کے شیڈول نمبر ۸ کے تحت انگریزی اور ہندی کو سرکاری زبان کے ساتھ ساتھ تقریبا ۲۳ زبانوں کی سرکاری حیثیت دی گئی، جن میں آسامی، بنگالی ، گُجراتی، ہندی، کناڑا، کشمیری، ملیالم، مراہٹی، اوریا، پنجابی، سنسکرت، تامل، تلگو شامل ہیں۔اُردو کو ۱۹۵۰ میں سرکاری حیثیت دی گئی۔ سندھی کو ۱۹۶۷ میں آٹھویں شیڈول کا حصہ قراردیا گیا۔ کونکانی، منی پوری، اور نیپالی کو ۱۹۹۲ میں، اوربوڈو، ڈوگری، میتھیلی، اور سنتالی کو ۲۰۰۴ میں آٹھویں شیڈول کا حصہ قرار دیا گیا۔
آج اِن ساری زبانوں کو انگریزی اور ہندی کے ساتھ ساتھ سرکاری حیثیت حاصل ہے اور ساری زبانیں ہندوستانی صوبوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ۴۷ زبانیں پبلک ایڈمنسٹریشن میں، ۸۷ زبانیں اخبارات و رسائل اور ۹۱ زبانیں ریڈیو پروگراموں میں استعمال کی جاتی ہیں، اِسی طرح ہندوستان دُنیا کا واحد مُلک ہے جس میں مادری زبانوں کو سرکاری حیثیت حاصل ہے۔
اگر جنرل یحیی خان اپنے پڑوسی مُلک کی مثال سامنے رکھ کر اپنے دوست نورخان کے ”Proposals for a New Educational Policy” پر عمل کرتے تو آج پاکستان اور پاکستانیوں کو شاید یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ نور خان کی منصوبہ بندی کے مطابق مشرقی پاکستان میں بنگالی اور مغربی پاکستان میں اُردو زبان کو سرکاری زبان قرار دینا تھا۔ لیکن باالفرض اگر نور خان کی پالیسی کامیاب ہو بھی جاتی تو ارباب اِختیار کے لیے اور مسئلے کھڑے ہو جاتے۔ ۱۹۷۰ کو نورخان کی رپورٹ منظر عام پر آئی جسے ۱۹۷۴ تک فیز وائز صوبائی سرکاری زبان قرار دینا تھا، لیکن ۱۹۷۲ میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی تو پاکستان میں خانہ جنگی کی صورتحال تھی۔ نورخان کی رپورٹ کامیاب نہ ہو سکی اور بنگلہ دیش کی جُدائی کا عظیم سانحہ پیش آیا جو یقینا ہمارے حکمرانوں کی غفلت کا نتیجہ ہے۔
بلوچی زبان پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں بھی کثیر تعداد میں بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی صوبہ بلوچستان میں 95 فیصد اور کرمان میں 50 فیصد بولی جاتی ہے۔ ھرمزگان اور گُلستان میں بھی بلوچوں کی بڑی تعداد بستی ہے۔
خلیجی ممالک بالخصوص سلطنت عمان میں %50 بلوچ رہتے ہیں جو آج تک اپنی مادری زبان بلوچی بولتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے نہ بلوچوں کی آبادی کے اعداد و شمار سرکاری طور پر صحیح دکھائے گئے ہیں اور نہ ہی اُن کی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل ہے اور نہ ہی بلوچی بولنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے تین صدیوں سے بلوچوں میں عربائیزیشن کا عمل جاری ہے، جو اقوام مُتحدہ کے قوانین کے تحت “forced assimilation” میں شمار ہوتا ہے۔
شاہی حکومت ہونے کی وجہ سے وہاں کے بلوچ اپنی مادری زبان کو گھر اور بازاروں میں بولتے تو ہیں لیکن عمان کی حکومت کو عملی طور پر سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا نہیں کہ سکتے، لیکن یہ عمل سلطنت عمان کے لیے نیک شگون نہیں ہے، کیونکہ بلوچ غیرسرکاری طور پر یہ محسوس کررہے ہیں کہ اُن کی زبان کو عربی سے بہت خطرات لاحق ہیں۔ پچھلے ایک دو دَہائیوں سے بحرین، سلطنت عمان ، دبئی، قطر اور کویت میں بلوچی ادبی ادارے، فورمز اور بلوچی ڈاکومنٹری فلمیں بننے لگی ہیں اور بلوچوں کو اپنی مادری زبان ختم ہو جانے کی فکر لاحق ہے۔ {سعید محمد الامیری :ص۲۴۱-۲۴۲}
ایرانی لینگوئیج پالیسی کے مطابق صرف فارسی ہی سرکاری اور رسل و رسائل کی زبان ہوگی، کیونکہ سرکاری اِدارے ایران میں بولی والی کسی بھی زبان کو علیحدہ زبان نہیں، بلکہ فارسی کی بولیاں سمجھتے ہیں۔ ایران میں رہنے والی دوسری قوموں کو بارہا ایرانی حکومت کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ اگر اُن کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو کسی صورت حال بگڑ سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایرانی حکومت آج تک اپنی ضد پہ اَڑی ہوئی ہے کہ فارسی ہی ایران کی زبان ہے۔
ایران میں بلوچی زبان بھی اسکول، کالجز اور جامعات میں نہیں پڑھائی جاتی، حالانکہ ایرانی آئین میں فارسی کے ساتھ ساتھ دوسروں زبانوں کی ترقی و ترویج پر زور دیا گیاہے۔ ۱۹۷۹ کے انقلاب کے بعد بلوچی ماہناموں اور مجلّوں پر پابندی لگائی گئی، ریڈیو اور ٹی وی کے نشریات بند کردیے گئے۔ بالاچ، گوہرام، چاکر، ہونک ، میرک اور سینکڑوں بلوچی الاصل ناموں پر پابندی لگادی گئی۔ صوبہ سیستان اور بلوچستان کے تمام شہروں کے بلوچی نام مُفرّس کیے گئے۔ مثلا دُزّاپ کا نام زاہدان، پَہرہ کا نام ایران شھر، چھبار کا نام چاہ بہار اور بہت سارے شہروں کے نام بدل دیے گئے تاکہ بلوچوں کی شناخت اور اُن کی زبان سے الفاظ ناپید ہوتے رہیں۔ ایران میں بیرونی ٹی وی چینلز اِس لیے بند کیے گئے تاکہ ایران میں بسنے والی قوموں کو سرحد پار اُن کے کسی بھی ہم زبان کے متعلق معلومات فراہم نہ ہو۔ صدر احمدی نژاد کے زمانے میں زاہدان یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کو اِس شرط پر بلوچی میگزین نکالنے کی اجازت دی گئی کہ ہر مضمون کا ترجمہ فارسی میں بھی ہو تاکہ شک کی گُنجائش نہ رہے۔ حالانکہ ایران کے آئین، باب نمبر ۲ آرٹیکل نمبر ۱۵ میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ “ایران کی سرکاری اور خط و کتابت کی زبان فارسی ہے۔ سرکاری دستاویزات، رسل و رسائل، نصاب اور لکھنے پڑھنے کے سارے مواد فارسی میں ہی لکھے جائیں گے۔ اِس کے علاوہ علاقائی اور قبائلی زبانوں اور اُن کی ادب کو اِسکولوں میں پڑھانے اور میڈیا اور پریس میں استعمال کرنے کی اِجازت ہو گی۔”
اِس کے باوجود پہلوی دور میں ایران کے اَندر فارسی ثقافت اور زبان کے علاوہ باقی تمام زبانوں اور ثقافتوں کو نظر انداز کیا گیا اور حکومتی پالیسی کے خلاف سمجھا گیا۔ ایرانی حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ شروع دِن سے ایران میں باقی زبانوں کو فارسی کی بولیاں سمجھتی ہے اور آج بھی سمجھ رہی ہے۔ اسی وجہ سے ایران میں مادری زبانوں کے حوالے سے کوئی پالیسی وضع نہیں گئی۔
سویڈش پروفیسر کارینا جہانی لکھتی ہیں کہ “پہلوی بادشاہ نسل پرستی اور شاونزم کی انتہا تک پہنچ گئے۔ اِنہوں نے میڈیا اور تعلیمی اِداروں کو کنٹرول کیا”۔ ایران میں پہلی مرتبہ بلوچی میں کتابت کا سلسلہ ۱۹۷۹ کے انقلاب کے بعد شروع ہوا۔ کچھ مہینوں کے اَندر کئی مجلّے بلوچی زبان میں نکلنا شروع ہوئے، لیکن یہ سلسلہ دیر تک نہیں چل سکا اور جلد ہی بہ زور طاقت ایرانی حکومت نے مجّلے بند کردیے اور مجلّوں کی کاپیاں ضبط کر لی گئیں۔ ۱۹۹۰ کے بعد پھر سے ایرانی حکومت طرف سے نرمی دکھائی گئی اور بلوچی میں ماہنامے نکلنا شروع ہوئے۔ لیکن اِس مرتبہ ہر میگزین کو تین چار جگہ سنسر ہونا پڑتا تھا۔ اِسے کے علاوہ ریڈیو میں بلوچی کے پروگرام جزوی طور پر ۱۹۶۰ سے شروع ہوئے، لیکن بلوچ اِن پروگرامز کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت کا مقصد ریڈیو پروگرام شروع کروانا بلوچی زبان کو ترقی دینا نہیں بلکہ پروپگینڈے کے ذریعے اپنے کاز کو لوگوں تاک پہنچانا ہے، کیونکہ ریڈیو پروگرامز میں مذہب اور ایک ہی طبقے کی نمائندگی کی جاتی ہے۔ بلوچی زبان میں ایران میں کوئی ٹی وی چینل نہیں ہے اور نہ کبھی اِس کی اِجازت دی گئی ہے۔
افغانستان کے آئین کے باب نمبر ۱، آرٹیکل نمبر ۱۶ میں درج زیل زبانوں کے بارے میں درج ہے “پشتو اور دری فارسی کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہوگی، اس کے علاوہ ازبکی، ترکمانی، بلوچی، پشائی اور نورستانی جو افغانستان میں بولی جاتی ہیں اُن کی ترقی و ترویج ریڈیو ، ٹی ۔وی اور پبلیکیشنز کے ذریعے کی جائیں گی۔”{دستور افغانستان}
بلوچ افغانستان کے صوبہ نیمروز میں اکثریت میں ہیں، اس کے علاوہ ہرات، ہلمند، چخانسر، فرح اور قندھار میں ان کی بڑی تعدار آباد ہے۔ ۱۹۷۹ میں افغانستان پر روسی حملے کے بعد بلوچی زبان کو سرکاری حیثیت دی گئی اور اسکولوں میں بلوچی زبان کو پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ بلوچی لٹریچر کی بہت سی کتابیں طبع ہوئیں۔ عبدالستار پرُدَلی کا پہلا ناول “سوب” کے نام سے چھپا جو افغانستان میں بلوچ سماجی زندگی کا شاہکار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح نیمروز میں بلوچ کلچرل سنٹر قائم ہوا اور بلوچی زبان میں افغانستان کے سرکاری ٹی۔وی چینل آر-ٹی۔اے میں پروگرامز نشر ہونے شروع ہوئے۔ لیکن یہ سلسلہ روسیوں کے نکل جانے بعد چل نہ سکا۔ ۱۹۹۰ میں سوویت یونین ٹوٹ گیا تو بلوچی زبان کی ساری کتابیں ضبط کی گئیں، اسکولوں میں بلوچی زبان کو پڑھانے کا سلسلہ بند کردیا گیا۔ طالبان کے آنے بعد افغانستان کی حالت یکسر بدل گئی۔ اِس ناگفتہ بہ دور میں دری اور پشتو زبانوں کا آمنا سامنا ہوا، پشتو زبان کو طالبان کی زبان اور دری فارسی کو مہذّبین، امراء و کبرا کی زبان سمجھی جانے لگی۔ ہزاروں کی تعداد میں طالبان اور تاجک بلوچ علاقوں {ہلمند، نیمروز، چخانسر، شوراوک اور فرح} میں شفٹ ہوگئے، جس سے بلوچی زبان اور بلوچوں کو ‘مارجینلائزیشن’ کا خطرہ لاحق ہوا۔
۲۰۰۴میں جب حامد کرزئی صدر افغانستان مُنتخب ہوئے تو انہوں نے بلوچوں کو یقین دلایا کہ اُن کی زبان دوبارہ اِسکولوں میں پڑھائی جائے گی۔ ۲۰۰۵ میں بلوچوں کا ایک وفد اپنے مطالبات لیکر صدر افغانستان جناب حامد کرزئی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حامد کرزئی نے اُنہیں یقین دلایا کہ قندہار یونیورسٹی میں شعبہ بلوچی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ وعدے کے مطابق قندہار یونیورسٹی میں بلوچی ڈیپارٹمنٹ کھولا گیا جس میں پہلی مرتبہ۸۰ سے زیادہ طلباء و طالبات نے داخلہ لے لیا۔ لیکن دو سال بعد افغان حکومت کو قندہار یونیورسٹی کا شعبہ بلوچی اِس لیے بند کرنا پڑا کیونکہ پاکستانی حکومت کی طرف سے ایک گُماشتے نے صدر اشرف غنی سے کہا کہ پاکستان کو قندہار یونیورسٹی کے شعبہ بلوچی سے خطرات لاحق ہیں۔ میری نظر میں حکومت پاکستان اور سرکار میں موجود ارباب اختیار کے لیے یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ وہ خالصتا علمی و ادبی ادارے کے لیے اِس طرح کی سوچ رکھتے ہوں۔
پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد بھی بلوچی زبان مختلف ادوار میں سرکار، سردار، زردار اور آمرانہ حکومتوں کے زیر عتاب رہی ہے۔ برطانوی سامراج کے دور میں گو کہ اُن کے عزائم کُچھ اور تھے لیکن پہلی مرتبہ برطانوی میجر مینسل لانگ ورتھ ڈیمز نے نیک نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریز فوج اور فوج میں ملازم عملے کے لیے بلوچی زبان میں نصاب متعارف کروایا۔ اِس کے بعد کئی انگریز مصنفین جن میں ویلھلم گائیگر، ٹی۔جے ایل۔مئیر، سر ٹمپل، جارج واٹر گلبرٹسن، پئیرسن، رچرڈ برٹن، اے۔ڈبلیو۔ہیوز، زروبن، جوزف الفبن بائن، نکولائی، مارسٹن، برائن سپونر، ۱یدریانو روسی، ایلا فلیپون ، کارینا جہانی اور اگنس کورن کے نام قابل ذکر ہیں ، جنہون نے بلوچی زبان ، تاریخ ، سفرنامے اور لغات پر شاہکار کام کیے جو آج بھی ریفرنس کے طور پر مانے جاتے ہیں۔
۱۸۳۸ میں جب انگریزوں نے بلوچستان پر قبضہ کرلیا تو انگریزوں کے خلاف نفرتیں بڑھنے لگیں۔ ۱۸۸۲ میں مولانا حضور بخش جتوئی اور مولانا فاضل درخانی نے انگریزوں کے خلاف سبی کے ایک چھوٹے سے گاوں درخان میں ایک مدرسے کا قیام عمل میں لایا جس میں بلوچی، براہوئی، سندھی، اردو، فارسی اور عربی کتابیں تصنیف اور ترجمہ کی گئیں۔ بلوچی زبان کا موجودہ رسم الخط بھی مکتبہ درخانی سے ہی وجود میں آیا۔ لیکن چونکہ یہ رسم الخط انگریزوں کے ری ایکشن اور سُرعت میں ترتیب دی گئی اور اس میں مذہبی عنصر رنگ زیادہ شامل تھا۔ اسی وجہ سے بلوچی ادب اور رسم الخط دونوں کو دُرخانی دور میں خاطر خواہ ترقی نہیں ملی۔
جدید رسم الخط میں بلوچی زبان میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز ۱۹۳۰ کے زمانے میں شروع ہوا۔ ۱۹۳۹ میں صوبہ سرحد {موجودہ کے۔پی۔کے} میں ایک کانفرس ہوئی جس میں پورے پاکستان سے دانشور، صحافی اور مُصنفین نے حصہ لیا۔ اِس کانفرس کی قابل تحسین بات یہ تھی کہ تمام شرکا نے اپنی مادری زبان میں ہی مقالے پڑھے۔ کانفرنس میں موجود بلوچی زبان کے عظیم شاعر، مورخ اور صحافی میر گُل خان نصیر نے محسوس کیا کہ مادری زبان ہی قوموں کی شناخت ہوتی ہے، بغیر مادری زبان کے قوموں کا وجود ممکن نہیں۔ 1951 میں اُس کی شاعری کی پہلی کتاب “گُل بانگ” کے نام سے چھپی۔ ۱۹۵۱ ہی میں بلوچی ماہنامہ ”اومان” مولانا خیرمحمد ندوی کی ایڈیٹرشپ میں سامنے آیا اور پھر ماہناموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن بروقت سرکاری کمک نہ ہونے کے سبب بہت سے رسالے چند شمارے کے بعد بند کرنے پڑے۔ ۱۹۵۶ میں ‘ماہتاک بلوچی’ کے نام سے بلوچی کے ممتاز شاعر آزات جمالدینی کی ایڈیٹر شپ میں چھپنے لگا۔ اِس ماہنامے کو چلانے کے لیے مالی مدد کی ضرورت تھی۔ آزات جمالدینی کشکول لے سرکاری دفاتر کا چکر کاٹتے رہے لیکن سرکاری افسران نے اُس کی ایک نہ سُنی۔ آخر کار اُس نے اپنی بیگم کے سونے اور زیورات بیچ کر ماہتاک بلوچی نکالنا شروع کیا۔ آخر زیورات کے پیسوں کو ختم ہونا ہی تھا۔ یوں ماہتاک بلوچی کی چھپائی رُک گئی۔ لیکن شعرا اور ادبا کی اُمیدیں نہیں رُکیں۔ بلوچی زبان میں اپنی مدد آپ کے تحت شاعری اور نثر کی کتابیں چھپنے لگیں۔
۱۹۵۱۔۱۹۷۰ تک بلوچی جدید شاعری اُردو کے برابر پہنچ گئی، جس میں میر محمد حسین عنقاء، میر گُل خان نصیر، کریم دشتی، ملنگ شاہ ہاشمی، سید ظہور شاہ ہاشمی، عطا شاد، میر احمد دہانی جیسے نامور شاعروں نے بلوچی میں طبع آزمائی کی۔ بلوچی نثر میں بھی موجودہ ادبی اور علمی تضاضوں کے مطابق اچھی پیش رفت ہوئی۔
۱۹۶۱ جب بلوچی اکیڈمی کا قیام عمل آیا تو علم و ادب سے وابستہ کئی لوگ بلوچی اکیڈمی کے ممبر بنے، جن میں میرعبداللہ جان جمالدینی، میر گُل خان نصیر، میر عاقل خان مینگل، سردار خان گشکوری، جسٹس خُدا بخش مری، صورت خان میر، میر مٹھا خان مری، عبدالحکیم بلوچ، عطاشاد، حاجی عبدالقیوم بلوچ، منیر احمد بادینی، جان محمد دشتی اور واحد بندیگ کے نام قابل ذکر ہیں۔ بلوچی اکیڈمی کو سرکار کی طرف سے بہت کم فنڈ ملتا تھا، جس کی وجہ سے بلوچی زبان و ادب کی اچھے پیمانے پر ترقی و ترویج نہیں ہوئی۔ لیکن اِس کے باوجود بہت سے شاعر اور ادیب جوش اور ولولے کے ساتھ اپنی زبان پر کام کرتے رہے اور بلوچی اکیڈمی میں سینکڑوں کے حساب سے کتابیں چھپ گئیں۔
1973 میں پیپلز پارٹی کے لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو جب پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو اُس نے قومی یکجہتی اور قومی سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی زبانوں کو سرکاری حیثیت دینے کا اعلان کردیا اور تمام صوبوں کے وزرائے اعلی اور ذمّہ داران کو صوبائی زبانوں کے نفاذ کا کہہ دیا، لیکن سِوائے سندھ کے کسی بھی صوبے نے اِس حوالے مثبت قدم نہیں اُٹھایا۔ بلوچستان میں اُس وقت کے وزیر اعلی سردار عطاءاللہ خان مینگل بلوچی زبان کو صوبائی زبان یا لنگوا فرانکا کی حیثیت نہ دے سکے۔ ۱۹۸۹ میں جب نواب اکبر خان بگٹی وزیر اعلی بنے تو اُس نے بلوچی زبان کو پرائمری لیول تک لازمی قرار دے دیا، لیکن ۱۹۹۰ میں نواب صاحب کے وزارت اعلی سے دست بردار ہونے کے بعد یہ پروجیکٹ دم توڑ گیا۔
سردار اختر مینگل کے دور حکومت میں بلوچی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے کافی مثبت اقدامات اُٹھائے گئے۔ بلوچی اکیڈمی کے لیے کوئٹہ شہر کے سنٹر میں عالی شان عمارت بنائی گئی اور بلوچی اکیڈمی کے سالانہ فنڈ پانچ لاکھ سے بڑھا کر پچاس لاکھ کردیے گئے۔ لیکن سردار اختر مینگل کے دور میں بھی بلوچی زبان کو سرکاری حیثیت نہ مل سکی۔ البتہ بلوچی زبان کالجوں میں آپشنل سبجیکٹ کے طور پر پڑھائی جانے لگی۔ ۱۹۹۲ میں باقاعدہ طور پر شعبہ بلوچی کا قیام عمل میں آیا، جس میں میر عاقل خان مینگل اور عبداللہ جان جمالدینی کی بر وقت کوششوں سے بلوچی میں ایم ۔اے، ایم ۔فل اور پی ایچ ڈی کے اسکالرز پیدا ہونے لگے۔ بلوچی زبان بولنے والوں کے علاوہ بہت سے غیر ملکی مُحققین کی دلچسپی بھی بلوچی زبان کی طرف بڑھنے لگی۔ ۱۹۹۲ سے لیکر اب تک ۲۰ کے قریب ایسے غیر ملکی ماہرین لسانیات ہیں جو بلوچی لسانیات PHD کر چُکے ہیں۔
۲۰۰۵ سے ۲۰۱۶ بلوچی زبان کا سب سے ذیادہ پُر آشوب دور رہا ہے۔ اِن گیارہ سالوں کے دوران پروفیسر صبادشتیاری اور بلوچ نوجوان ادیب اور شعرا کی بلوچی زبان پر خدمات قابل تحسین ہیں تو دوسری طرف ارباب اختیار کی زبان اور ادب دشمن پالسیاں بھی کم نہیں۔ ۲۰۰۵ میں پروفیسر صبادشتیاری نے بلوچی زبان کو اِسکولوں میں پڑھانے کے لیے ایک نصاب کمیٹی بنائی تھی جس میں بلوچستان کے بہت سے پرائیویٹ اِسکولوں کے پرنسپلز، کالجز کے لکچرار اور جامعات کے پروفیسرز شامل تھے۔ اِس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ سید ظہور شاہ اکیڈمی کراچی کے تعاون سے پرائمری سے لیکر میٹرک تک بلوچی کورس کی کتابیں ترتیب دی جائیں گی اور پہلے فیز میں پرائیوٹ اِسکولوں پہ مرتبہ نصاب لاگو کیا جائے گا۔ پروفیسر صبادشتیاری کی ذاتی محنت اور کاوشوں سے مکران، خاران، نوشکی اور ضلع آواران کے پرائیویٹ اِسکولوں میں بلوچی پڑھائی جانے لگی۔ لیکن ۲۰۱۱ میں پروفیسر صبادشتیاری شہید کردیے گئے، جس سے بلوچی زبان و ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ بلوچستان کے حالات حد سے ذیادہ خراب ہوگئے۔ ۲۰۱۴ میں تربت شہر میں کتابوں کی دُکانوں پر چھاپے مارے گئے اور بلوچی زبان میں لکھی گئی بیشتر کتابیں ضبط کر لی گئیں اور دُکانوں کے مالکان کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ جب کتابوں کی چھان بین کی گئی تو کتابیں خالصتا افسانوں کی کتابیں نکلیں۔ اِس کے بعد دُکان کے مالکان کو رہا کردیا گیا۔ ۲۰۱۴ ہی میں پرائیوٹ اِسکول ” دی اویسسز” کے پرنسپل زاہد آسکانی کو اِس لیے شہید کردیا گیا کہ اُس نے پرائمری سے لیکر میٹرک تک بلوچی لینگوئج کورس لازمی قرار دیا تھا۔ ۲۰۱۴ میں بلوچی زبان کے مشہور شاعر مبارک قاضی کو چھ مہینے تک اِس لیے تِہ زندان کردیا گیا کہ اُس کی شاعری نوجوانوں میں وطن سے محبت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ۲۰۱۵ کو پنجگور کے ایک پرائیوٹ اِسکول پر نامعلوم مذہبی شدّت پسندوں نے اِس لیے حملہ کیا تھا کہ متعلقہ اِسکول میں بلوچی کی جگہ عربی کیوں نہیں پڑھائی جاتی۔
۲۰۱۶ کو گوادر میں کتابوں کی دکانوں پر چھاپا مارا گیا، بہت سے بلوچی ماہنامے اور بلوچی کی کتابیں ضبط کر لی گئیں اور دُکانوں کے مالکان کو بھی جیل جانا پڑا۔ تحقیقات کے بعد کُچھ حاصل نہ ہوا تو اُنہیں رہا کردیا گیا۔ پسنی ضلع گوادر میں بلوچی کے بُزرگ شاعر انور صاحب خان کو ایک مہینے تک شاعری کی پاداش میں تہ زندان ہونا پڑا۔ جب جیل سے چھوٹ گئے تو ملک چھوڑ کر ایران میں سکونت اختیار کر گئے۔ لیاقت بازار کوئٹہ میں شعبہ بلوچی، جامعہ بلوچستان کے دو طالب علم اِس لیے گرفتار ہوئے کیونکہ اُن کے ہاتھ میں بلوچی روزنامہ ”نوائے وطن” کی کاپیاں تھیں۔
جب حالات کافی سنگین ہوئے تو سینکڑوں کے حساب سے بلوچ ادیب اور شاعر ملک چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔ اُن میں سے ذیادہ تر خلیجی ممالک اور یورپ چلے گئے، اور وہاں اپنی ادبی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
بلوچ کلب بحرین اور بلوچی اکیڈمی ‘ بام’ مسقط عمان کافی ایکٹیو ہو گئے، جہاں ہر سال بلوچی زبان و ادب کے پرنٹ مواد کےعلاوہ بلوچی دستاویزی فلمیں اچھی تعداد میں بنتی ہیں۔ پاکستان میں بلوچی اکیڈمی کوئٹہ، بلوچستان اکیڈمی تُربت، عزّت اکیڈمی پنجگور، مُلّا فاضل اکیڈمی مَند، سید ہاشمی اکیڈمی گوادر، عطاشاد اکیڈمی تُربت اور سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کراچی سے ہر سال سینکڑوں کے حساب سے کتابیں چھاپتی ہیں اور ایک درجن سے ذیادہ ماہنامے اور رسالے بھی چھپتے ہیں۔ مذکورہ بالا اکیڈمیوں میں سے صرف بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کو سرکاری گرانٹ ملتا ہے جب کہ باقی تمام اکیڈمیاں عوامی کمک سے ہی چلتی ہیں۔
۲۰۱۵ میں ڈاکٹر مالک کی حکومت نے بلوچستان میں بلوچی، پشتو، سندھی، براہوئی اور ہزارگی زبانوں کی ترقی اور ترویج اور اِسکولوں میں پڑھانے کے لیے سرکاری سطح پر اعلان کیا۔ اِس وقت بلوچی کے ساتھ ساتھ پشتو، براہوئی اور سندھی پرائمری لیول تک پڑھائی جا رہی ہیں۔ لیکن صوبائی اِسمبلی سے اِس کا باقاعدہ بل پاس نہیں ہوا ہے۔ ہو سکتاہے کہ ڈاکٹر مالک کا یہ پروجیکٹ آنے والی حکومت میں فلاپ ہو جائے، کیونکہ ارباب اِختیار اور سول سکریٹریٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ مادری زبانوں کے حق میں نہیں ہیں، وہ اپنے بچّوں کو انگلش میڈیم اِسکولز میں پڑھانا چاہتے تو ہیں لیکن وہاں بھی مادری زبانوں کو لازمی یا آپشنل کورس کے طور پر مُتعارف نہیں کروانا چاہتے۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے سندھی زبان کو بلوچستان میں پرائمری تک پڑھنے کی اِجازت تو دے دی لیکن سندھ حکومت سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ سندھ میں رہنے والے کروڑوں بلوچوں کی زبان کو تحفظ دیا جائے۔ اِس وقت سندھ کی ۶۰ فیصد آبادی نسلی طور پر بلوچ ہے جن میں ۴۰ فیصد اپنی مادری زبان بلوچی بولتے ہیں۔ سندھ کا ہر پہلا یا دوسرا بندہ بلوچ ہی ہے لیکن بدقسمتی سے سندھ میں اپنے ہی بلوچ سردار جاگیر دار، وڈیرہ اور صوبائی اِسمبلی میں بیٹھے نمائندے بلوچی زبان کے حق میں نہیں۔ عوام اِس پوزیشن میں نہیں ہے کہ سرداروں کے سامنے آواز اُٹھا سکے۔ پچھلے دو سال سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سندھ حکومت نے منصوبے کے تحت بلوچی بولنے والوں کے شناختی کارڈز میں زبان سندھی لکھوائی ہے جس سے بلوچ شناخت اور بلوچی زبان کو حد درجہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ عمل یقینا قابل تنقید ہے۔
پاکستان کی آزادی کو ۷۰ سال بیت گئے لیکن ارباب اِختیار ابھی تک اُردو ، انگلش ، عربی اور فارسی کی کشمکش کا شکار ہیں۔ آج کل تو حکومت پاکستان کی طرف چینی زبان کے بھی شوشے ہوا میں گردش کررہے ہیں۔
جنرل ضیا الحق کے زمانے میں عربی زبان پر توجہ دی گئی لیکن یہ زبان مدرسے کی زبان بن کر رہ گئی اور سرکاری اِسکولوں میں چھٹی سے آٹھویں کلاس تک پڑھائی جانے لگی۔ پرائیوٹ اِسکولز اِس سے مُبرّا تھے۔
مُستقبل میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ انگریزی جو جرمن زبان کی اِیک بولی تھی لیکن گردش وقت اور انگریزوں کی بروقت محنت نے اُسے بین الاقوامی زبان بنا دیا۔ عربی زبان پیغمبر اِسلام کے زمانے میں حجاز و نجد میں بولی جاتی تھی۔ ۲ عیسوئی تک عربی زبان کا نام واضح نہیں تھا۔ عربی زبان کو ” اریبا یا عریبو’ کے نام سے جانا جاتا تھا اور یہ خانہ بدوش اور بدووں کی زبان تھی لیکن آج عرب سامراج کی وجہ سے عربی ۲۲ ممالک کی سرکاری زبان ہے۔ اِسی طرح ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکا میں بہت سی چھوٹی زبانیں تھیں جن کا وجود خطرے میں تھا لیکن اُن زبانوں کے بولنے والے، اہل قلم ، دانشور اور ارباب اختیار نے مثبت اقدام اُٹھا کر اُنہیں سرکاری زبان کی حیثیت دی۔
اہل قلم سے میر ا سوال ہے کہ کیا ہم اپنی پوری توانائی اِس چیز پر صرف کریں لیں کہ کب ہمارے تعلقات کسی سُپر پاور سے اچھے ہوں اور ہم اُس کی پیروی کر کے اُس کی زبان اپنا لیں۔ یا اپنی مادری زبانوں کو عامیانہ یا غیرضروری زبانیں سمجھ کر تَرک کردیں؟ اور اگر اِس طرح ہے تو نہ ہم اپنے رہیں گے اور نہ ہی دوسروں کے۔ کیونکہ زمانے کے جبر سے دُنیا کی بڑی زبانیں بھی مرجاتی ہیں اور چھوٹی زبانیں ترقی کے مراحل میں داخل ہوکر بین الاقوامی زبانیں بن سکتی ہیں۔
آخر میں، میں تمام ماہرین لسانیات، دانشور، اہل قلم، شعرا، ادیب اور سرکارمیں بیٹھے ہوئے ذمہ داران سے گذارش کرتا ہوں کہ مادری زبانوں کی ترقی و ترویج کے لیے سوچیں، ورنہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود اقوام کے درمیان لسانی دوریاں بڑھ جائیں گی۔
ایک تبصرہ شائع کریں