{ads}


 جی، ایم مستوئی

آج سے پانچ سال پہلے اسی 28 اگست کی خون آلودہ شام میں جب سورج تھکا ہارا چلتن کے پہاڑوں کے پیچھے کچھ دیر سستانے کے لیے چھپ گیا تھا، کوئٹہ کے گرد و نواح کی مساجد میں مغرب کی اذان کی صدائیں گونج رہی تھیں، رات کی سیاہی اپنی چادر اوڑھنے کی تیاری میں مصروف تھی….

تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ حسبِ معمول اپنے مقصد کو منزل پر پہنچانے میں مصروف عمل تھے۔ تمھارا مقصد نہ ملک توڑنا تھا اور نہ کہیں قبضہ کرنا تھا۔ تم تو اپنے نہتے قلم کے ذریعےصرف اور صرف اپنے لوگوں کے حقوق دلوانے کی بات کر رہے تھے۔ ان کے وسائل ان پر خرچ کر کے، ان کے مسائل کا حل چاہتے تھے۔

تم اپنے نوجوانوں کے لیے روزگار ، بچوں کے لیے تعلیم کے دروازے وا کروانے چاہتے تھے۔ تم معاشی انصاف کے داعی تھے۔ تم چاہتے تھے کہ ریاست ماں کا کردار ادا کرے۔ تمام ادارے اور حکمران عوام کے آگے جوابدہ ہوں۔ طاقت کا سرچشمہ صرف اور صرف عوام ہوں۔

اور تمھارا قلم اس مقصد کے لیے آخری سانس تک اٹا اور ڈٹا رہا۔

اسے ڈرایا گیا، دھمکایا گیا، خریدنے کی کوشش کی گئی۔ مگر وہ نہ کبھی بکا نہ کبھی جھکا، نہ کبھی قلم کی حرمت پر آنچ آنے دی۔ وہ مسلسل لکھتا رہا اور کہتا رہا:

ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

تم 2009 میں اپنا ایک ہاتھ قلم بھی کروا چکے تھے۔ مگر عشاق کے قافلے کے پرعزم سپاہی کی طرح کبھی کسی سستی کو اپنے مقصد کے آڑے آنے نہیں دیا۔

اس روز بھی تم کوئی اسٹوری ٹیبل کر رہے تھے تو عین اس وقت تمھارے قاتل نے اپنے سہولت کاروں اور تمھاری صفون میں چھپی کالی بھیڑوں و آستین میں پلنے والے سانپوں کی مدد سے وار کر کے اپنے خیبر کے قلعہ فتح کرنے کی نوید سنائی تھی۔ اور جشن منانے کی تیاریوں کا کہا تھا تو اس کی اس سادگی اور معصومیت پر ترس آیا تھا۔

ان کی سوچ اور فلسفہ سقراط کو زہر دینے، گلیلو کی زمین سورج کے گرد گھومنے کی دریافت کو جھوٹا سمجھنے، امام حسین اور اہلِ خانہ کا کربلا میں پانی بند کرنے، شاہ عنایت، مخدوم بلاول، بھگت سنگھ، حسن ناصر، نذیر عباسی کو شہید کروانے والی سوچ گھٹیا اور دقیانوسی فلسفہ تھا۔ ان کی سوچ اور فلسفہ کو ختم کروانے والے خود رسوا، ذلیل و خوار ہو گئے مگر ان کو ختم نہ کر سکے۔ انھوں نے اپنی جانیں دے کر اپنے افکار، اصول، سوچ اور فلسفہ کو زندہ رکھا۔ اپنے لہو سے مقصد کو مقدس سمجھا۔

جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں!

ارشاد کی شہادت نے ایک نئے ارشاد مستوئی کو جنم دے دیا۔ اس کا خون رنگ لا رہا ہے۔ وہ ایک ذات سے نکل کر ایک تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ وہ مر کر بھی زندھ ہو رہا ہے۔ تم زندھ ہو کر بھی مردہ بنتے جا رہے ہو۔ تمہاری سوچ نے تمھیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اب تمہارے لیے کیا بچا، سوائے ذلت اور رسوائی کے!!۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی