شیراز گل
آج پھر 28 اگست ہے، اس تاریخ کو ہم چاہ کر بھی نہیں بھلا سکتے۔ یہ وہی تاریخ ہے جب امن کے دشمنوں نے آپ کو شانتی کا شیدائی قرار دے کر قتل کیا۔
ہاں وہی تاریخ جب نفرت پھیلانے والوں نے آپ کو محبتوں کا پیامبر تسلیم کر کے موت کے گھاٹ اتارا۔
جی وہی تاریخ جب اندھیرے کے عادی لوگوں نے آپ کو مشعال مان کر گولیوں سے چھلنی کیا۔
وہی تاریخ ہے جب جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے پالے ہوئے پالتوؤں نے آپ کو ہاری اور مزدور کا ہمدرد اور ساتھی جان کر بھاڑے کے قاتلوں کو آپ کی سپاری دی۔
اسی تاریخ پہ بندوق اور گولیوں کی زبان بولنے والوں نے آپ کو قلم کا ساتھی سمجھ کر آپ کے قلم کو توڑد یا۔
مگر شاید وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ آپ ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک نظریہ تھے۔ بندوں کو گولی ماری جا سکتی ہے، لیکن نظریات کو کبھی موت نہیں دی جا سکتی۔ وہ اس بات سے بھی شاید بے خبر تھے کہ یہ نظریہ تو بچپن ہی سے آپ کی نسوں میں خون بن کر دوڑ رہا تھا۔
آپ کی شہادت پر بلوچستان کے ایک نامور ادیب نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ “شہادت کے اسباب ذاتی نہیں ہوتے” ۔ یہ سطر بالکل آپ کے نظریہ کے مترادف ہے۔ کیونکہ آپ کا نظریہ ذاتی نہیں تھا، بلکہ پسے ہوئے طبقے کے حقوق کی آواز تھا۔ یہ جاگیرادانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔
یہ وہی نظریہ تھا جس کی بدولت حسن ناصر، بھگت سنگھ، نذیر عباسی، امام علی نازش اور ان جیسے اَن گنت نظریاتی دوستوں نے اس طبقاتی سماج کے خلاق لڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش کیا۔ آپ کی شہادت بھی ان ہی شہادتوں کا تسلسل ہے۔
ان احمقوں نے آج سے چار سال پہلے یعنی 28 اگست 2014 کی شب آپ کو شہید کر کے “ارشاد ختم ، سب ختم” کا نعرہ لگا کر جشن منایا۔
لیکن آپ کی شہادت کے بعد انہیں اس بات کا احساس ضرور ہوا ہو گا کہ ارشاد مستوئی ہو یا نذیر عباسی، ان کو صرف جسمانی طور ان کے پیاروں سےجدا کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے اس پختہ نظریہ کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ موت سے مرنے والے نہیں بلکہ امر ہوجانے والے ہیں۔
ہماری آواز کو دبایا نہیں جا سکتا
موت سے ہمیں مٹایا نہیں جا سکتا
ایک تبصرہ شائع کریں