خالد میر
زمین یا دھرتی سے محبت فطری جذبہ ہے جو انسانوں سمیت جانوروں میں بھی ہوتا ہے لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کر سکتے، آپ تجربے کے لیے کسی جانور چھ ماہ ایک جگہ رکھیں اس کے بعد کسی دوسرے علاقے لے جائیں تو ابتدائی دنوں مں وہ یقیناًعجیب و غریب حرکات کرے گا، کیوں کہ اس کے علاوہ اس کے پاس اظہار کا کوئی ذریعہ نہیں۔ حضرت انسان چوں کہ اظہار کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوا ہے تو وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔ دھرتی (وطن) کے ساتھ یہی محبت کا جذبہ حب الوطنی کہلاتا ہے۔
لیکن وطن (یا ملک ) صرف زمین کے ٹکڑے کو نہیں کہا جاتا۔ وطن سے مراد وہ خطہ ہے جہاں انسان آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ جہاں انسان پیدا ہوتا ہے، انسانوں، دوستوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مل کر ہنسی خوشی زندگی بسر کرتا ہے اور اسے بہتر زندگی گزارنے کے لیے تمام سہو لیات مہیا ہوتی ہیں اور یہی انسانی رشتے ناطے، رہن سہن حب الوطنی کا موجب بنتے ہیں، محبت دراصل اپنے اردگرد کے انسانوں سے ہوتی ہے گویا دھرتی یا وطن سے محبت دراصل اس دھرتی یا وطن کے لوگوں سے محبت کا جذبہ ہے۔
اس اصول کے مطابق آپ محبِ وطن تبھی کہلائے جا سکتے ہیں جب آپ اپنی دھرتی (زمین کے ٹکڑے) کے ساتھ ساتھ وہاں بسنے والے انسانوں سے بھی پیار کریں، اپنی بساط کے مطابق ان کی فلاح و بہبود، ترقی و تعمیر کے لیے اپنا حصہ ڈالیں، دھرتی کے واسیوں (شہریوں) کی زندگی بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، یہ حب الوطنی کا بنیادی معیار ہے۔ ورنہ آپ اسی جانور کی طرح ’محبِ وطن‘ ہیں جو کچھ عرصہ ایک جگہ گزارنے کے بعد دوسرے ملک جانے پر عجیب و غریب حرکات شروع کر دیتا ہے جس کا مطلب اپنی زمین پر واپسی کا مطالبہ ہوتا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے مملکتِ خداداد میں ’حب الوطنی‘ کے معیار بہت ہی عجیب ہیں۔ مطالعہ پاکستان والی فیس بکی فلاسفر نسل کے لیے حب الوطنی کا مطلب صرف اپنے ملک کے بڑے بڑے جھنڈے بنا کر دکھانا، لگانا، پڑوسی ممالک (اوردور درواز کے امریکہ، اسرائیل) کو گالیاں دینا، ان کے جھنڈوں کی توہین کرنا، اور اپنے ہر خطاب، بات، فیس بک اسٹیٹس یا ٹویٹ کے آخر میں ’پاکستان زندہ باد، پاک آرمی پائندہ باد، باقی سب مردہ باد‘ لکھنا ہے۔ یہ سب کرنے بعد آپ بھلے لوٹ مار، چور ڈکیتوں کی سربراہی، اغوا برائے تاوان یا نہتے شہریوں کے قتل میں ہی کیوں نہ ملوث ہوں آپ کو پاکستان کے محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے اور اس حساب سے ہمارے پاس الحمداللہ ایسے بے شمار محبِ وطن موجود ہیں جن کی نظر میں وطن صرف زمین کا ٹکڑا اور اس پر لگا جھنڈا ہے۔ باقی عوام و انسان جائیں بھاڑ میں، آپ چور ڈکیٹوں کی سربراہی کریں، لوگوں کو کو اغوا کریں، تاوان لیں، نہ دینے پر لوگ مار بھی دیں پھر بھی آپ ’محبِ وطن‘ ہی رہیں گے کیوں کہ آپ نے زندگی میں ایک بار بہت بڑا پرچم بنا دیا تھا (وہ بھی بھلے کسی اور انسان کی محنت کی کمائی آپ نے اس کو اغوا کر کے اس سے تاوان میں لیے پیسوں سے ہی کیوں نہ بنایا ہو)۔
ہماری نوجوان نسل جو صرف مطالعہ پاکستان اور فیس بک پڑھ کر جوان ہوئی ہے اس کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محب ِوطن ہونے کے لیے محبِ عوام ہونا (اپنے وطن کے لوگوں کے ساتھ ہم درد و مخلص ہونا) اولین شرط ہے، ’پرو پاکستانی‘ ہونے کے لیے آپ کا ’پرو پیپل‘ ہونا بھی ضروری ہے کیوں کہ یہ وطن، یہ ملک (بل کہ دنیا کا ہر ملک) عوام کی بدولت قائم ہے۔ ملک پرچم کی سائز سے نہیں عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے سے ترقی کرتے ہیں۔ پرچم کی سائز کا ریکارڈ بنانے سے زیادہ اہم لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانا ہے، خدارا اس پر توجہ دیں، اور اس پر توجہ دینے والے، اس میں اپنا حصہ ڈالنے والوں کو ’محبِ وطن‘ گرداننا شروع کریں، اسی میں وطن کی اور وطن واسیوں کی عزت ہوگی۔
ایک تبصرہ شائع کریں