{ads}

 


جی ایم مستوئی

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

آج تمہیں ہم سے بچھڑے ہوئے پورے تین سال، 36 ماہ، 156 ہفتے، 1095 دن، 26280 گھنٹے، 1576800 منٹس، اور 94608000 سیکنڈ ہوگئے ہیں مگر اس وقت تک تمہارے قتل کا معمہ حل نہیں ہو پا رہا، وجہ معلوم نہیں ہو رہی، اس راز سے پردہ نہیں اٹھ پا رہا کہ قاتل کون ہے اور اس نے قتل کیوں کیا؟ کس کے کہنے پہ کیا؟ اس کا فائدہ کس کس کو ہوا؟ مگر یہ سب سوال بھی تو بیکار ہیں، پاگلوں والے، بیہودہ اور احمقانہ سوالات ہیں۔ بھلا کس کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے، ایسے سوالات پوچھنے اور ان کے جوابات جاننے کی۔

اب تو یہ سوالات بے معنیٰ لگتے ہیں۔ آئے دن یہاں سیکڑوں لوگ مر رہے ہیں، قتل ہو رہے ہیں، جنازے اٹھ رہے ہیں، بچے یتیم ہو رہے ہیں، بیویاں بیوہ بن رہی ہیں، ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں، کوئی کچھ نہیں کر رہا، بے بسی ہے، بے کسی ہے، ماتم ہے، نوحہ خوانی ہے، ہر وقت ہر جگہ موت کا رقص ہے۔ مگر پھر بھی لمبی خاموشی ہے۔ لب بھی آزاد ہیں مگر زبان بول نہیں پا رہی۔ کوئی انجانا سا ڈر ہے، خوف کا سماں ہے۔ سکوت کا عالم ہے، ہر کوئی اپنے آپ کو بچانے کے چکر میں ہے۔ کہیں وہ نہ کسی اندھی گولی کا شکار ہو جائے۔ کہیں وہ نہ کسی خود کش دھماکے میں مار دیا جائے یا پھر اٹھا کر گمشدہ لوگوں کی لپیٹ میں ڈال دیا جائے اور تھوڑے ہی عرصے بعد بوری بند لاش کی صورت میں کسی سڑک کے کنارے نہ پھنکوا دیا جائے۔

جو تمہارے ساتھ ہوا وہ سب نے دیکھا کہ کس طرح امیر شہر نے یہ آخری حکم صادر کیا کہ، “اب ارشاد مستوئی کو اندھی گولی کا شکار بنا دو”۔ قاتل کے سر پر سلمانی ٹوپی ہونی چاہیے تا کہ 25، 30 لاکھ کی آبادی والے شہر کوئٹہ میں کسی کو کچھ نظر نہ آئے۔ یا پھر سارے شہر کے لوگوں کی آنکھیں اندھی کر دی جائیں تاکہ وہ کچھ نہ دیکھ پائیں۔ اور پھر قاتل رات کے اندھیرے کا انتظار بھی نہیں کرتا۔ شام کے سات بجے بجلی کے قمقموں میں، کینٹ کے بغل میں آباد 100 سے زیادہ کمروں پر مشتمل پرانی کبیر بلڈنگ میں جہاں زیادہ تر میڈیا ہاؤس کے دفاتر، نجی ہسپتال ، اسکولز، ٹیوشن سینٹرز ہیں۔ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں، لوگوں کی بھیڑ ہے، مگر قاتل بلڈنگ کے فرسٹ فلور کے کمرہ نمبر 11 میں آتا ہے۔ ارشاد مستوئی اور اس کے دو ساتھیوں محمد یونس اور عبدالرسول خجک کو شہید کر کے آرام سے نکل جاتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ سامنے والے کمرہ نمبر 12 والوں کو بھی بھنک تک نہیں پڑتی جہاں اسی ادارے کا دوسرا اسٹاف بیٹھا اپنا کام کر رہا ہے۔

اور پھر تھوڑی دیر کے بعد سارا شہر جاگ جاتا ہے۔ چیخ و پکار، شور شرابا شروع ہو جاتا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کے کندھے سے سر لگا کر رو رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک سوگوار ہو چکا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے تعزیت کر رہا ہے۔ میڈیا کی بریکنگ نیوز چل رہی ہے۔ چینلز کے لوگو سیاہ ہو چکے ہیں۔ مشہور و معروف لوگوں کو آن لائن لے کر شہدا کے بارے میں تاثرات لیے جا رہے ہیں۔ شہید ارشاد مستوئی کے کارنامے گنوائے جا رہے ہیں…. کہ ارشاد مستوئی بڑا بہادر اور بے باک صحافی تھا۔ اس سے پہلے بھی اس پر بہت حملے ہو چکے تھے مگر ہر بار زندگی اسے موت کے منہ سے نکال لے جاتی رہی ہے۔ یا پھر امیر شہر کا حکم نامہ موت نامہ نہیں ہوتا ہے۔

پہلی دفعہ جب 2007 میں وہ اپنے اخبار کے دفتر سے ڈیوٹی کر کے نکلا تھا تو اٹھا لیا گیا تھا۔ دو چار گھنٹے کی ٹھکائی کے بعد یہ سبق دے کر چھوڑ دیا گیا تھا کہ “یہ کام چھوڑ دو، ہمارا کام کرو، عیش میں رہو۔” مگر ارشاد نہ مانا۔ دوسری بار 2009 میں گوادر میں جب ملک کی پوری قیادت اٹھارویں ترمیم پر دستخط کرنے کے لیے جمع تھی، یہ بھی حکم کی عدولی کرنے وہاں پہنچ گیا تو ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی کے پاس گزرتی 11 ہزار وولٹ کی تار سے ہاتھ ٹکرایا تو دایاں ہاتھ جل گیا جسے بعد میں کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں کٹوانا پڑا۔ کہیں دور سے آواز آئی یہ کریکر کا دھماکہ تھا جس بجلی کے تاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ پھر بھی “میں نہ مانوں” کی تکرار۔

ایک ہاتھ ضائع کروانے کے باوجود بائیں ہاتھ سے کام جاری رکھا۔ حوصلہ کوہِ ہمالیہ سے بھی بڑھ گیا۔ ارادوں میں استحکام آ گیا۔ جذبات میں جوش بھر گیا۔ ایسے میں ایک بار پھر امیر شہر کا حکم نامہ جاری ہوا، مگر اس بار بھی سر پھٹا۔ 7، 8 ٹانکے لگوانے پڑے۔ یہ واقعہ 2010 کا ہے جب یوم عاشور کے دوران لیاقت بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں کام سے باز رہنے کا الٹی میٹم دیا گیا۔ مگر ارشاد کہاں باز آتا۔ سرکش جو تھا۔ موت سے نہ ڈرنے والا، اپنے کام سے جنون کی حد تک شوق رکھنے والا، فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی ، حبیب جالب کی شاعری کا عاشق، اپنی دُھن کا پکا۔ نہ جھکنے والا، نہ بکنے والا۔ ایسے وقت میں جب تنگدستی کا عالم ہو اوپر سے پُر کشش آفرز کو ٹھکرا کر عَلمِ بغاوت بلند کیے ہوا تھا۔ تب یہ آخری حکم نامہ صادر ہوا کہ “اب اسے ٹھکانے لگا دو ۔۔۔” اور وہ ٹھکانے لگ گیا۔۔۔

امیر وقت کے حکم کو بجا لایا گیا۔ قاتل بچ کر نکل گیا۔ کیس دفتر داخل کر دیا گیا، یعنی کھیل ختم، پیسہ ہضم!! نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری!!

ارشاد مستوئی شہید کر دیا گیا۔ اس کا قلم توڑ دیا گیا۔ مگر اسے ہمارے دلوں اور ذہنوں سے نہیں نکالا جا سکا۔ ارشاد کی شہادت کے وقت اس کے ساتھیوں نے اس کے لہو سے اپنے سفید جھنڈے رنگ لیے تھے۔ اس کے خون آلودہ ٹوٹے قلم کو جوڑ کر اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور کہا، “آج سے ہم سب ارشاد ہیں، یہ قلم اب بھی نہیں رکے گا، نہ ٹوٹے گا۔ اب اس حق کی آواز کو کوئی دبا نہیں سکتا۔”

ہماری آواز کو دبایا نہیں جا سکتا
موت سے ہمیں ڈرایا نہیں جا سکتا


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی