ارشاد مستوئی
( ارشاد کے قتل کے بعد اس کے دفتر سے ملنے والے اوراقِ پریشاں میں اس کا نثری کلام جا بہ جا بکھرا پڑا ملا. مذکورہ نظم شاید اس کا آخری نثری کلام ہے جو اس نے اپنی موت سے کچھ ہی روز قبل لکھا تھا، یہ اس کے قتل کی سب سے مستند دستاویز بھی ہے. ایڈیٹر)
………………………
خوش رنگ
خوابوں کی
پرچھائیوں کو
قتل کر کے
اپنے تعاقب میں
دوڑتی موت کو
شکست دے سکتا ہوں
مگر
کیا کروں کہ
میرے دیس کی محرومیوں کے ازالے
اور ظلمت کی تاریکی کو ختم کر کے
خوش حالی کا سورج
اپنے ہاتھ میں اٹھانے کی دعوے دار
دو طرفہ نادیدہ و نامعلوم قوتیں
میری دشمن بن گئی ہیں
باردو کے ڈھیر پہ ٹکی
میری آنکھوں میں قید
زندگی کا عکس
اڑنے کو پر تول رہا ہے
اور موت
رقص کرتی ہوئی
میرے جسم کے
سناٹوں میں اتر رہی ہے!!
(اگست۔2014ء)
ایک تبصرہ شائع کریں